چهارشنبه 30/آوریل/2025

کیا فلسطینی سپریم کورٹ مقبوضہ بیت المقدس سے دستبردار ہو چکی؟

بدھ 5-اکتوبر-2016

سوموار کے روز فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت فلسطینی سپریم کورٹ نے ملک میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق ایک درخواست پر فیصلہ سنایا تو اس فیصلے پر کئی پہلوؤں سے سیاسی جماعتوں اور عوامی حلقوں کی طرف سے رد عمل  آیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ بلدیاتی انتخابات صرف مغربی کنارے میں کرائے جائیں اورغزہ کی پٹی میں انتخابات کا انعقاد نہ کیا جائے۔ اس پر فلسطینی عوامی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا۔ مگر فلسطینی عدالت کی طرف سے ایک اور ڈنڈی ماری گئی۔ وہ یہ اس پورے فیصلے میں مقبوضہ بیت المقدس کا کہیں تذکرہ تک نہیں کیا گیا حالانکہ فلسطینی اتھارٹی بار بار بیت المقدس کو فلسطینی ریاست بنانے کا دعویٰ کرتی ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کی عدالت کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق فیصلے میں بیت المقدس کو ذکر ‘گول‘ کئے جانے پر سماجی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے ایک نئی بحث جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر فلسطینی سپریم کورٹ کے اقدام کو بیت المقدس کو فراموش کرنے اور فلسطین کے اٹوٹ انگ کو اہم ترین فیصلوں میں نظر انداز کرنے کا الزام عاید کیا گیا ہے۔

بیت المقدس سے تعلق رکھنے والے فلسطینی تجزیہ نگار راسم عبیدات نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’فیس بک‘ پر رام اللہ اتھارٹی کی عدالت کے فیصلے پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا فلسطینی سپریم کورٹ بیت المقدس جیسے اہم ترین شہر کو انتخابات سے متعلق فیصلوں میں نظرانداز کر چکی ہے؟ کیا فلسطینی عدالت یہ سمجھتی ہے کہ بیت المقدس کا فلسطینی ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

راسم عبیدات کے استفسار پر سوشل میڈیا پر تندو تیز بحث جاری ہے اور سماجی کارکن بڑھ چڑھ کر فلسطینی سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقیدی تبصرے کررہےہیں۔ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی عدالت نے اپنے فیصلے سے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ بیت المقدس اس کے ریکارڈ میں شامل ہی نہیں ہے۔ صرف غزہ کی پٹی اور غرب اردن کے شہر اس کا حصہ ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی