فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت سپریم کورٹ نے فلسطین میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق جاری کردہ فیصلے میں کہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات صرف مقبوضہ مغربی کنارے میں کرائیں، غزہ کی پٹی میں انتخابات کا انعقاد نہ کیا جائے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا تاہم کل سوموار کے روز جاری ہونے والے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت صرف غرب اردن میں بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کی اجازت دیتی ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں قائم عدالتی نظم ونسق رام اللہ میں قائم سپریم کورٹ کے ماتحت نہیں،اس لیے غزہ کی پٹی میں انتخابات کا انعقاد نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری جانب ملک کی بیشتر سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور عوامی حلقوں نے فلسطینی سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے قوم کو تقسیم کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ جس میں غزہ میں بلدیاتی انتخابات کی اجازت دینے سے انکار کیا گیا ہے قوم کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ حماس عدالت کے مذکورہ فیصلے کو تسلیم نہیں کرتی۔ حماس کے سیاسی شعبے کے نائب صدر ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے ایک بیان میں کہاہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے صرف غرب اردن میں انتخابات کرانے اور غزہ کی پٹی میں انتخابات کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ عدلیہ کو سیاست میں ملوث کرنے اور قوم میں مزید تقسیم اور اختلافات کی خلیج کو گہرا کرنے کے مترادف ہے۔
ابو مرزوق نے کہا کہ عدالت نے قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ حماس اس فیصلے کو کسی صورت میں قبول نہیں کرے گی۔ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر دیں۔
خیال رہے کہ فلسطین میں بلدیاتی انتخابات کے لیے 8 اکتوبر 2016ء کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تھا۔ کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے بعد اگست میں بعض لوگوں کے اعتراضات پر بلدیاتی انتخابات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔ عدالت نے ڈیڑھ ماہ کے غور وخوض کے بعد ایک ایسا فیصلہ صادر کیا ہے جسے بیشتر فلسطینی سیاسی جماعتوں نے مسترد کر دیا ہے۔