اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطین کے مقبوضہ وادی اردن کے علاقے میں مسلسل فوجی مشقوں اور وہاں پر بسنے والی فلسطینی آبادی کو بار بار گھر بار چھوڑنے پر مجبور کرنے کی پالیسی پر فلسطینی اتھارٹی نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق تنظیم آزادی فلسطین کے زیرانتظام قومی دفتر برائے دفاع اراضی و مزاحمت یہودی آباد کاری کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وادی اردن صہیونی فوج کا ایک خاص ہدف ہے۔ وہاں پر ہونے والی جنگی مشقوں کا اصل مقصد فلسطینی آبادی کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کرنا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج آئے روز وادی اردن میں جنگی مشقیں کرکے وہاں پر رہنے والی فلسطینی آبادی کو گھر بار چھوڑںے پر مجبور کرتی ہے۔ اس حربے کا اصل مقصد اور اس کے درپردہ سازشوں کا مقصد وادی اردن کے قرب وجوار میں قائم یہودی کالونیوں کو وسعت دینا اور فلسطینیوں کو بے دخل کر کے ان کی زمینوں پر یہودی کالونیاں بسانا ہے۔
ادھر ایک دوسرے بیان میں دفاع اراضی دفتر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس کے جنوب مغرب میں صہیونی ریاست کی طرف سے مزید مکانات کی تعمیر کا اعلان فلسطینیوں کے خلاف ایک نئی سازش ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی ریاست فوجی طاقت کے ذریعے بیت المقدس میں یہودی توسیع پسندی میں سرگرم عمل ہے۔ بیت المقدس میں ’’الولجہ‘‘ کے مقام پر یہودی آباد کاری کے لیے 170 دونم اراضی غصب کرنا اور وہاں پر 98 نئے رہائشی یونٹس تعمیر کرنا فلسطینی آبادی کو بے دخل کرنے کی گھناؤنی سازش ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صہیونی حکومت الولجہ کے مقام پر مجموعی طور پر 493 نئے مکانات تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ یہودی عبادت گاہوں کی تعمیر کا ارادہ رکھتی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام کی طرف سے جاری کردہ نقشوں میں بتایا گیا ہے کہ ایک لاکھ مربع میٹر کے رقبے میں سے 46 ہزار مربع میٹر کا رقبہ مکانات کی تعمیر اور 2000 مربع میٹر کا رقبہ پبلک عمارات کے لیے مختص کیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ مقبوضہ مغربی کنارے کا 78 فی صد فوجی علاقہ قرار دیا گیا علاقہ یہودی آباد کاری کے لیے کھولا جا رہا ہے۔ ان علاقوں کو یہودی آباد کاری کے ساتھ ساتھ فوجی مشقوں کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔