فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے تمام عوامی اور قومی قوتوں کے مطالبات کو نظرانداز کرتے ہوئے آج جمعہ کے روز اسرائیل کے سابق صدر اور فلسطینیوں کے قاتل شمعون پیریز کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے بیت المقدس پہنچ گئے ہیں جہاں انہوں نے جنازے میں شرکت کے لیے آئے دوسرے عالمی رہ نماؤں سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ شمعوم پیریز کی آخری رسومات میں شرکت روکنے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ پر سیاسی اور عوامی سطح پر سخت دباؤ تھا مگر وہ دباؤ نظرانداز کرکے فلسطینیوں کے قاتل کے جنازے کو کندھا دینے پہنچے ہیں۔ ادھر دوسری جانب اسرائیلی کنیسٹ [پارلیمنٹ] کے عرب ارکان نے شمعون پیریز کے جنازے میں شرکت سے انکار کردیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی کے ہیڈ کواٹر سے جمعرات کی شام جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر محمود عباس آج جمعہ کے روز بیت المقدس جائیں گے جہاں وہ بدھ کے روز وفات پانے والے اسرائیل کے سابق صدر اور فلسطینیوں کے قاتل شمعون پیریز کے جنازے میں شرکت کریں گے۔
فلسطینی تنظیموں اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ ، عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین اور اسلامی جہاد نے صدرعباس سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سابق اسرائیلی صدر کے جنازے میں شرکت کا فیصلہ واپس لیں کیونکہ شمعون پیرز فلسطینیوں کا قاتل تھا۔ اس نے اسرائیل کے صدر اور وزیراعظم کی حیثیت سے نہتے فلسطینیوں کے قتل عام کی منظوری دی۔ یوں وہ براہ راست اور بالواسطہ طور پر فلسطینیوں کے کشت خون اور نسل کشی کا مرتکب رہا ہے۔ فلسطینیوں کے قاتل کے جنازے میں کسی فلسطینی لیڈر کی شرکت کا کوئی جواز نہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ میں عرب کمیونٹی کے ارکان نے شمعون پیریز کے جنازے میں شرکت سے صاف انکارکردیا ہے۔ عرب کمیونٹی سے منتخب خاتون رکن کنیسٹ اور فلسطینی عرب سیاست دان عایدہ توما نے جمعرات کے روز ایک بیان میں کہا کہ تمام عرب ارکان کنیسٹ نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ وہ جمعہ کے روز سابق اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے جنازے میں شرکت نہیں کریں گے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق مسز توما کا کہنا تھا کہ شمعون پیریز کی آخری رسومات میں شرکت کے بائیکاٹ کے تین واضح اسباب ہیں۔ پہلا یہ کہ پیریز فلسطینی اراضی میں یہودی آباد کاری کا نگران رہا ہے۔ دو یہ کہ اس نے صہیونی ریاست کو جوہری ہتھیاروں سے لیس کرکے خطے کی سلامتی کو بھی داؤ پر لگا دیا جب کہ تیسرا سبب جنوبی لبنان میں قانا کے مقام پر سنہ 1996ء میں قتل عام کی منظوری شمعون پیریز نے اس وقت دی تھی جب وہ صہیونی ریاست کے وزیراعظم تھے۔
ایک دوسرے عرب رکن کنیسٹ مسعود غنائم نے ایک بیان میں کہا کہ سنہ 1976ء میں فلسطینیوں کے قتل عام کی منظوری اس وقت کے اسرائیلی وزیر دفاع شمعون پیریز نے دی تھی۔ نیز وہ فلسطین میں یہودی توسیع پسندی کے پروگرام کے پرزور حامی رہے ہیں۔ شمعون پیریز نے فلسطینیوں، عربوں اور یہودیوں کے درمیان مساوات کا تصور پیش کرکے فلسطینی قوم کے لیے خود مختار ریاست کی مساعی کو نقصان پہنچایا۔
خیال رہے کہ اسرائیلی پارلیمنٹ کے 120 رکنی ایوان میں 17 ارکان اسرائیل کی عرب کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ صہیونی ریاست کے اندر آنے والے علاقوں میں عرب باشندوں کی تعداد کل آبادی کا 20 فی صد ہے۔ قیام اسرائیل سنہ 1948ء کے وقت ان علاقوں میں 14 لاکھ فلسطینی قیام پذیر تھے۔ صہیونی ریاست کے قیام کے بعد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بندوق کے زور پر نکالا گیا اور اب وہاں پر ایک لاکھ 60 ہزار فلسطینیوں کی اولاد قیام پذیر ہے۔