اردن کی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ گیس کے اخراج کا مشترکہ معاہدہ کیا ہے جس پر اردن کے عوامی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ سیاسی اور سماجی رہ نماؤں کی جانب سے جاری کردہ بیانات کہا گیا ہے کہ صہیونی ریاست کےساتھ گیس معاہدہ اردن کے وسائل کو یہودیوں کے ہاتھ گروی رکھنے اور قومی اثاثوں کو فروخت کرنے کے مترادف ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اردن کی حکومت اور اسرائیلی حکومت نے دو روز قبل ایک متفقہ معاہدے کے تحت سمندر سے گیس کے اخراج کے مشترکہ معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے میں اردن کی جانب سے سرکاری الیکٹرک اینڈ گیس کمپنی بہ طور فریق شامل ہے۔
اسرائیل اور اردن کے درمیان گیس کے اخراج کے معاہدے پر اردن کے عوامی اور سیاسی حلقوں میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس معاہدے کے خلاف سخت لے دے کی جا رہی ہے۔
مائیکروبلاگنگ ویب سائیٹ ٹوئٹر پر ’’اسرائیل۔۔ دشمن۔۔۔ گیس ھیش ٹیگ‘‘ کے عنوان سے ایک مہم جاری ہے جس میں اردن کی سرکردہ سیاسی اور سماجی شخصیات حصہ لے رہی ہیں۔
سماجی اور سیاسی رہ نماؤں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ گیس کے اخراج کا مشترکہ معاہدہ قومی وسائل کو دشمن کے ہاتھ فروخت کرنے کے مترادف ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق صہیونی ریاست کےساتھ تعلقات کےقیام کے خلاف سرگرم مزاحمتی کمیٹی کے چیئرمین مناف مجلی کا کہنا ہے کہ ہم اسرائیل کے ساتھ گیس معاہدے کو دو طرفہ ڈیل کا نام نہیں دیتے بلکہ یہ معاہدہ ملک کو یہودیوں کے ہاتھ فروخت کرنے کے مترادف ہے۔
عمان میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں مجلی نے کہا کہ اردن کی عوام پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تمام معاہدوں کو مسترد کرچکے ہیں۔ گیس کے اخراج کا مشترکہ معاہدہ قومی وسائل کودشمن کے ہاتھ فروخت کرنے کے مترادف ہے جو ایک سنگین جرم ہے۔
اردنی تجزیہ نگار میسرہ ملص کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ گیس کے اخراج کا متفقہ معاہدہ کرکے ہم نے دراصل فلسطینیوں کے قتل عام کی حمایت کی ہے۔ اس نوعیت کا کوئی بھی معاہدہ نہ تو اردن کے مفاد میں ہے اور نہی فلسطینی قوم کے مفاد میں ہے۔ اس معاہدے کا فائدہ صرف اسرائیل کو پہنچ سکتا ہے۔
اردن کے کئی دیگر سیاسی اور مذہبی رہ نماؤں نے بھی اس معاہدے کی شدید الفاظ میں مخالفت اور مذمت کرتے ہوئے اردنی حکومت سے اس معاہدے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔