چهارشنبه 30/آوریل/2025

فلسطینی علاقوں پر قبضے کے لیے صہیونی ریاست چالاکی کا بھانڈہ پھوٹ گیا!

بدھ 21-ستمبر-2016

صہیونی ریاست کی پالیسیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل کسی عالمی ضابطے، بین الاقوامی حقوق کے معاہدے یا انسانی حقوق کے منشور کا پابند نہیں۔ گوکہ صہیونی ریاست بین الاقوامی اداروں کو بھی تسلیم کرتا ہے اور جنیوا معاہدوں کی پابندی کا بھی دعویٰ کرتا ہے مگر حال ہی میں ایک عبرانی اخبار نے صہیونی ریاست کی جنیوا معاہدے کی پابندی کی حقیقت کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ اخبار نے دو اہم تاریخی دستاویزات کا حوالہ دیا ہے جن میں اعلیٰ صہیونی حکام نے سفارت کاروں کو احکامات جاری کیے تھے کہ وہ عالمی سطح پر جنیوا معاہدوں پر پاسداری کے لیے اسرائیل کو مجبور کرانے سے روکیں۔

عبرانی اخبار’ہارٹز‘ نے دو دستاویزات شائع کی ہیں۔ ان دونوں دستاویزات کا تعلق سنہ 1967ء کی عرب ۔ اسرائیل جنگ اور اس کے نتیجے میں فلسطین سمیت دوسرے ملکوں کے علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے حوالے سے ہے۔ چونکہ اسرائیل نے جنگ کے ذریعے فلسطینی شہروں بیت المقدس اور غرب اردن، شام کی وادی گولان، لبنان کے بعض سرحدی علاقوں اور مصر کے جزیرہ نما سینا پر قبضہ کر لیا تھا۔ عالمی قوانین اور جنیوا معاہدے کی رو سے اسرائیل ان تمام علاقوں پر قابض اور غاصب ریاست تھی مگرصہیونی ریاست نے نہایت چالاکی کے ساتھ عالمی سطح پر اپنے غاصبانہ اسٹیٹس کی روک تھام کے لیے سفارت کاری کی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مارچ سنہ 1968ء کو اسرائیلی وزیرخارجہ اسحاق رابین کے سیاسی مشیر اور اقوام متحدہ میں سابق سفیر میخائل کومی کو ایک مراسلہ بھیجا گیا۔ اس مراسلے میں سفیر موصوف سے کہا گیا تھا کہ وہ امریکا اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کی حمایت میں لابنگ کریں تاکہ اسرائیل پر فلسطینی مقبوضہ علاقوں کے حوالے سے جنیوا کنونشن پرعمل درآمدکے لیے دباؤ نہ ڈالا جائے۔ اس چالاکی اور ہوشیاری کے ذریعے صہیونی ریاست نے خود کو جنیوا معاہدے اور اس کے طے کردہ اصولوں سے باہر رکھتے ہیں اپنے غاصبانہ اسٹیٹیس کو آئینی جواز فراہم کرنے کی کوشش کی۔ اخبارلکھتا ہے کہ اس  مراسلے کے بعد میخائل کومی نے امریکا میں بھرپور لابنگ کی اور امریکیوں کو اس بات پرقائل کرلیا تھا کہ وہ اسرائیل پر جنیوا معاہدے پر عمل درآمد کے لیے دباؤ نہیں ڈالیں گے۔

خیال رہے کہ جنیوا معاہدے کے تحت اسرائیل سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے علاقوں کو متنازعہ قرار دینے کا پابند تھا اور ان علاقوں کا فیصلہ پڑوسی ملکوں کے ساتھ مل بیٹھ کر حل کرنا تھا کہ آیا اسرائیل ان علاقوں پر تصرف کرسکتا ہے  یا نہیں۔

دوسرا مراسلہ جس کی طرف اخبار نے اشارہ کیا 22 جون 1967ء کو جاری کیا گیا۔ یہ مراسلہ اسرائیلی وزرات خارجہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل یوسف تکواع نے اسرائیلی سفیروں کے نام جاری کیا جس میں انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ وہ قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقوں کے لیے ’’مقبوضہ‘‘ کی اصطلاح استعمال نہ کریں۔

مراسلے میں لکھا گیا کہ ریڈ کراس کی طرف سے بار بار یہ معاملہ اچھالا جا رہا ہے کہ قبضے میں لیے گئے علاقوں میں بنیادی شہری حقوق کے لیے جنیوا معاہدے پرعمل درآمد کیسے کیا جائے گا۔ اس ضمن میں ضروری تاکید کی جاتی ہے کہ جنیوا معاہدے کے اصولوں سے باہر رہتے ہوئے سفارت کار ان اصطلاحات کے استعمال سے گریز کریں جن سے یہ تاثر ملتا ہو کہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ناجائز ہے۔

کومی نے جوابی مراسلے میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ ’مقبوضہ‘ علاقوں کی اصطلاح کے بجائے ’اسرائیل کے زیرانتظام علاقے‘ اصطلاح استعمال کی جائے یا اسرائیلی فوج کے زیرکنٹرول علاقہ قرار دیا جائے۔

میخائل کومی اور میرون اعتراف کرتے ہیں کہ بیت المقدس کے حوالے سے خاص تاکید کی گئی تھی کیونکہ اسرائیلی حکومت القدس کے معاملے میں جنیوا معاہدے کے اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کررہی تھی۔ وہاں مشکل صرف مشرقی بیت المقدس کی تھی۔

یوں ان دونوں دستاویزات نے صہیونی ریاست کی منظم سازش کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں کوئی نئی بات نہیں۔ عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے بار ہار فلسطینی علاقوں میں صہیونی ریاست کے ناجائز قبضے اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر آواز اٹھائی گئی۔ مگر صہیونی ریاست نے نہتے فلسطینیوں کے خلاف جہاں ایک طرف فوجی طاقت کا وحشیانہ استعمال جاری رکھا وہیں مقبوضہ فلسطینی علاقوں پراپنا تسلط مزید مستحکم کرنے کے لیے دن رات سازشیں اور منصوبے جاری  رہے۔

مختصر لنک:

کاپی