انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں انتظامی حراست کی پالیسی کے خلاف بھوک ہڑتال کرنے والے فلسطینی قیدیوں کو عدالت کی طرف سے جبری خوراک دیے جانے کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کے سنگین نتائج کا اسرائیل کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ’فلسطین۔ یورپ ڈاکٹرز‘‘ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ اسرائیلی حراستی مراکز میں بھوک ہڑتال کرنے والے قیدیوں کو جبرا خوراک دینے کا عمل عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ڈاکٹر منذر رجب نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلی سپریم کورٹ کی طرف سے بھوک ہڑتالی قیدیوں کو زبردستی غذا دینے کی اجازت دینا عدالتی قتل کی اجازت دینے اور اس کی راہ ہموار کرنے کی سازش ہے۔ زبردستی غذا دینے سے قیدیوں کی جانوں کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ جبری خوراک دینے کا عمل بھوک ہڑتالی اسیران کو اذیتیں دینے کی مذموم سازش ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز اسرائیل کی سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں انتظامیہ کو اجازت دی تھی کہ اگر بھوک ہڑتالی اسیران کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوتو وہ انہیں زبردستی خوراک دے سکتے ہیں۔
بھوک ہڑتالی قیدیوں کو زبردستی خوراک دینے کو عالمی سطح پر قوانین کی رو سے سنگین جرم قرار دیا گیا ہے مگر صہیونی عدالت نے اس کی اجازت دے کر جاں بلب قیدیوں کی زندگیوں کو سنگین خطرات سے دوچار کرنا ہے۔
ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے سربراہ ڈاکٹر رجب کا کہنا ہے کہ کسی بھی بھوک ہڑتالی قیدی کو جبری غذا دینا عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی اور انسانی اقدار کے منافی ہے۔ سنہ 1975ء میں ٹوکیو اور 1991ء میں مالٹا میں منظور ہونے والے عالمی معاہدوں کے تحت کسی بھوک ہڑتالی قیدی کو ناک کے ذریعے خوراک کی نالی تک جبراً غذا داخل کرنے کو سنگین جرم قرار دیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ اسرائیل کی جیلوں میں تین فلسطینی دو ماہ سے زاید عرصے سے بھوک ہڑتال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تین اسیران محمد البلبول، اس کے بھائی محمود البلبول اور مالک القاضی نے دو ماہ سے زاید عرصے سے بلا جواز انتظامی حراست کے خلاف بھوک ہڑتال شروع کر رکھی ہے۔ تینوں اسیران کی حالت تشویشناک بیان کی جاتی ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور فلسطینی انسانی حقوق کے گروپوں نے قیدیوں کو جبراً خوراک دینے کے عمل کو مکروہ انتہائی ظالمانہ حربہ قرار دیا ہے۔