فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس میں کل ہفتے کو ایک یہودی شرپسند کی جانب سے گاڑی تلے روند کر شہید کی گئی چھ سالہ معصوم بچی کو آنہوں اور سسکیوں میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ننھی شہیدہ کا آخری دیدار کرنے فلسطینی عوام کا سمندر امڈ آیا۔ ہزار ہا افراد نے شہیدہ لمیٰ مروان موسیٰ کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔
خیال رہے کہ ننھی لمیٰ مروان موسیٰ کو ایک یہودی دہشت گرد نے کل ہفتے کو مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر بیت لحم میں الخضر کےمقام پر سڑک پر چلتے ہوئے قصداً کچل ڈالا تھا جس کے نتیجے میں معصوم بچی جام شہادت نوش کر گئی تھی۔
یہودی حملہ آور فلسطینی بچی کو کچلنے کے بعد موقع سے فرار ہو گیا تھا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ اسرائیلی فوج کی آنکھوں کے سامنے پیش آیا مگر انہوں نے یہودی شرپسند کو پکڑنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ شدید زخمی معصوم بچی کو اسپتال لے جانے میں بھی رکاوٹیں کھڑی کیے رکھیں جس کے نتیجے میں اسے بروقت اسپتال نہ پہنچایا جا سکا۔
ننھی شہیدہ کو کل اتوار کو الخضر قصبے کی مرکزی مسجد کے گراؤنڈ میں نماز جنازہ کی ادائی کے بعد سپرد خاک کر دیا گیا۔ شہیدہ لمیٰ مروان موسیٰ کی نماز جنازہ میں بیت لحم سمیت فلسطین کے دوسرے شہروں اور قصبات سے بھی بڑی تعداد میں فلسطینی شریک ہوئے۔ نماز جنازہ کے دوران ہر آنکھ اشک بار تھی۔ اس موقع پر مشتعل اور غصے میں برہم فلسطینی نوجوانوں نے صہیونی فوج اور یہودی شرپسندوں کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ لوگ فلسطینی پرچم لے کر ٹولیوں کی شکل میں شہیدہ کے گھر پہنچے اور صدمے سے دوچار اس کے والدین کی ڈھارس بندھانے کے ساتھ صہیونی دہشت گردوں کی کارروائی میں متاثرہ خاندان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
خیال رہے کہ لمیٰ سنہ 2010ء میں جڑواں بہن حلا کے ساتھ پیدا ہوئی تھی۔ دونوں بہنیں خاندان کی سب سے چھوٹی اولاد تھیں۔ جڑواں بہنوں میں سے ایک بچی کو یہودی شرپسندوں نے ان کے والدین سے چھین لیا۔
شہیدہ کی نماز جنازہ اور تدفین کی وجہ سے آج الخضر کے علاقے میں ہرقسم کی کاروباری اور تعلیمی سرگرمیاں بند رہیں۔