اسرائیل کی سپریم کورٹ نے اسرائیلی جیلوں میں صہیونی انتظامیہ کے مظالم کے خلاف بہ طور احتجاج بھوک ہڑتال کرنے والے فلسطینی اسیران کی ہڑتال کا عزم توڑنے کے لیے انہیں جبری خوراک دینے کی اجازت دے دی ہے۔ دوسری جانب فلسطینی حلقوں نے صہیونی عدالت کے فیصلے کو ظالمانہ اور سفاکانہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق کلب برائے اسیران کے لیگل یونٹ کے ڈائریکٹر جواد بولس نے بتایا کہ صہیونی سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں جیل انتظامیہ اور پولیس سے کہا ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو وہ بھوک ہڑتال کرنے والے فلسطینیوں کی زندگی بچانے کے لیے انہیں جبرا خوراک دے سکتے ہیں۔ جواد بولس کا کہنا ہے کہ صہیونی عدالت کا فیصلہ دراصل فوج اور جیل انتظامیہ کو بھوک ہڑتالی اسیران کا عزم توڑنے اور انہیں جبراً خوراک دینے کی اجازت دینے کے مترادف ہے حالانکہ عالمی انسانی حقوق کے ادارے اور بین الاقوامی قوانین میں جبری خوراک کو غیرانسانی قرار دیا جا چکا ہے۔
فلسطینی قانون دان کا کہنا ہے کہ صہیونی عدالت کی طرف سے اسیران کو جبری خوراک دینے کی اجازت دینا مزاحمتی راستہ اختیار کرنے والے کارکنوں پر جبرو تشدد کی اجازت دینے کے مترادف ہے مگر صہیونی انتظامیہ اور عدالت کے اس مکروہ حربے سے فلسطینیوں کے احتجاج کے عزم کو توڑا نہیں جا سکتا ہے۔
ایک بیان میں جواد بولس کا کہنا تھا کہ اسیران کو جبرا خوراک دینا عالمی قوانین اور بین الاقوامی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ صہیونی ریاست جن عالمی معاہدوں کی پابندی کا اعلان کرچکی ہے ان میں قیدیوں کو جبرا خوراک دینے کی پابندی بھی شامل ہے مگر عملا صہیونی ریاست اور اس کے ادارے نہتے فلسطینی اسیران کو جبرا خوراک دینے کی راہ ہموار کررہے ہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیلی سپریم کورٹ کی طرف سے فلسطینی اسیران کو جبری خوراک دینے کی اجازت اور اس پر فلسطینیوں کا شدید ردعمل ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ اسرائیل جیلوں میں قید متعدد فلسطینی اسرائیل طویل عرصے سے بھوک ہڑتال جاری رکھے ہوئے ہیں۔