جمعه 15/نوامبر/2024

پناہ گزینوں کیلئے متحرک فلسطینی صحافیہ یونان چھوڑنے پر مجبور

پیر 12-ستمبر-2016

یونان میں پہنچنے والے پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی فلسطینی صحافیہ امل فاعور پانچ ماہ تک یونانی حکام کے زیرعتاب رہنے کے بعد ملک چھوڑنے پرمجبور ہو گئی۔

مرکزاطلاعات فسطین کے مطابق امل فاعور نے اپنی زبان وقلم سے یونان پہنچنے والے پناہ گزینوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ یونان میں پناہ گزین کیمپوں میں یونانی حکام کے مظالم کو بے نقاب کرنےکے باعث عالمی شہرت پائی مگر اس کی یہ خدمت یونانی حکومت کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ چنانچہ یونانی حکومت نے امل فاعور کو حراست میں لے لیا اور مسلسل پانچ ماہ تک اس کی ابلاغی سرگرمیوں پر پابندی کے ساتھ ساتھ اسے گھر پر نظر بند کیے رکھا۔ آخر کار وہ یونان کی سرزمین چھوڑنے پرمجبور ہوئی ہے۔

 فلسطینی صحافی اور تجزیہ نگار ایمن خالد نے ترک اخبار’’ پیام بیداری‘‘ میں ایک مضمون لکھا ہے جس میں امل فاعور کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 26 سالہ فاعور کئی ماہ تک یونانی حکام کے زیرعتارب رہیں۔ آخر کار انہوں نے یونان کی سرزمین ہی چھوڑ دی ہے۔ وہ ایک پناہ گزین کی حیثیت سے یونان میں قیام پذیر تھیں جہاں انہوں نے یونان پہنچنے والے شامی پناہ گزینوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی مگر یونان  کو اس کی یہ خدمات کسی صورت میں قبول نہیں ہو سکی ہیں۔

فلسطینی صحافی ایمن خالد کا کہنا ہے کہ امل فاعور کو شام میں فلسطین مصنفین میں اس وقت شامل کیا گیا تھا جب وہ 14 سال کی تھیں۔ اس نے انتہائی کم عمری میں ابلاغی خدمات انجام دینا شروع کر دی تھیں۔

ایمن خالد کا کہنا ہے کہ یونانی حکام کی طرف سے امل فاعور کے ساتھ بدسلوکی اور اس کی توہین و تذلیل سے اندازہ ہوتا ہے کہ یونان پہنچنے والے پناہ گزین کس قدر سنگین مشکلات کا شکار ہیں۔

انہوں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ یونان میں قائم کیے گئے شامی پناہ گزینوں کے کیموں میں پولیس کی طرف سے انسانیت کے خلاف جرائم کیے جاتے۔ پناہ گزینوں کے ساتھ برتا جانے والا سلوک جنگی جرائم کے مجرموں کے ساتھ نہیں کیا جاتا۔ مگر یونان میں قائم پناہ گزین کیمپوں میں جنگی جرائم سےبھی سنگین نوعیت کے جرائم کیے جاتے رہے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی