فلسطین کے سابق وزیر برائے القدس امور انجینیر خالد ابو عرفہ نے کہا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس کے دفاع اور یہاں پر رہنے والے فلسطینیوں کے حقوق بالخصوص حق خود ارادیت کے حصول کے لیے تمام فلسطینی قومی قوتوں پر مشتمل دفاع القدس کونسل تشکیل دی جائے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انجینیر ابو عرفہ نے کہا کہ ان دنوں اہالیان بیت المقدس ایک نئے موسم [بلدیاتی انتخابات کی تیاری کے مرحلے] سے گذر رہے ہیں۔ القدس کے شہری پورا سال یہ نعرہ سنتے رہتے ہیں کہ بیت المقدس کو خود مختار فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنایا جائے گا، مگر یہ نعرے ہوائی ثابت ہوتے ہیں کیونکہ عملی میدان میں ہر آنے والا دن القدس کے باشندوں پر پہلے سے زیادہ مشکلات لے کرآ رہا ہے۔ اسرائیلی فوج، پولیس اور دیگر ریاستی ادارے القدس کے باشندوں کے بنیادی حقوق پامال کر رہے ہیں۔ یوں القدس کے باشندوں کی روز مرہ کی زندگی دیگر فلسطینی شہروں میں بسنے والے فلسطینیوں سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔
خالد ابو عرفہ نے کہا کہ صہیونی قابض انتظامیہ فلسطینیوں کو بنیادی حقوق سے استفادے کا موقع نہیں دے رہی۔ فلسطینیوں کی نمائندہ لیڈر شپ بھی القدس کے باشندگان کے حقوق کے لیے معمولی درجے کی جدوجہد بھی نہیں کر رہی ہے۔ دوسری طرف بیت المقدس میں اسرائیل کی نام نہاد بلدیہ کی طرف سے فلسطینی باشندوں کے گرد گھیرا مزید تنگ کیا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں القدس کے عوام ایک نئی اور کٹھن آزمائش سے گذر رہے ہیں۔
اسرائیلی بلدیہ کو بیت المقدس کے باشندوں کے ایک خدمت گار ادارے کے طور پر پیش کرنے کی بھونڈی کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ عالمی سطح پر یہ تاثر دیا جا سکے کہ فلسطینی اتھارٹی اور فلسطینیوں کی نمائندہ قیادت کا القدس کے امور میں کوئی عمل دخل نہیں رہا ہے۔ اسرائیلی بلدیہ کی طرف سے یہودی کالونیوں میں رہنے والے آباد کاروں کو ہمہ نوع سہولتیں فراہم کرنے کا سلسلہ جاری ہے مگر فلسطینی شہریوں پر عرصہ حیات مسلسل تنگ کیا جا رہا ہے۔ صہیونی انتظامیہ بیت المقدس کی بلدیہ کو ایک نمائندہ بلدیاتی ادارے کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ یوں بیت المقدس میں بسنے والے فلسطینیوں کو ایک اقلیت کا درجہ دیا گیا ہے۔ فلسطینی شہری چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل بیت المقدس کو یہودیت میں غرق کرتے ہوئے وہاں کے اصلی باشندوں کو وہاں سے کلی طور پر بے دخل کرنے کی سازشوں پر عمل پیرا ہے مگر القدس کے باشندوں کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہے۔
صہیونی ریاست سے میل جول بڑھانے کے اہداف
سابق فلسطینی وزیر خالد ابو عرفہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی انتظامیہ اپنے غاصبانہ قبضے کو وسعت دینے کے لیے مختلف نوعیت کے وسائل کو استعمال کر رہی ہے۔ فلسطینیوں کو طرح طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ترھیب اور ترغیب کے ذریعے القدس کے فلسطینی باشندوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔ ایسے مشکل حالات پیدا کیے جا رہے ہیں تاکہ فلسطینی خود ہی تنگ آ کر بیت المقدس چھوڑ دیں۔
ترغیبی حربوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ان میں ایک اہم حربہ فلسطینی آبادی کو اسرائیلی بلدیاتی انتخابات میں شامل کرنے کی سازش ہے۔ فلسطینیوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے بلدیاتی سسٹم کے لیے اپنا ووٹ استعمال کرکے اپنے سماجی حقوق کو یقینی بنائیں مگر اس حربے کے ذریعے فلسطینیوں کو صہیونی ریاست کے باشندے قرار دینے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔
اسرائیلی انتظامیہ اور حکومتی ادارے عالمی سطح پر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ بیت المقدس کے تمام باشندوں کے درمیان رواداری پر مبنی تعلقات قائم ہیں مگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ صہیونی ریاست کے اس نوعیت کے تمام دعوے قطعاً باطل اور بے بنیاد ہیں۔ اس طرح کے تمام دعووں کا مقصد صرف صرف یہ ہے کہ القدس پر قبضہ مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے بین الاقوامی برادری کو اعتماد میں رکھا جائے۔
ابو عرفہ نے کہا کہ حالیہ چند برسوں کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ القدس بلدیہ صہیونی ریاست کا بیت المقدس میں توسیع پسندی کی سازشوں کو آگے بڑھانے کا ایک آلہ ہے۔ صہیونی ریاست دنیا بھر میں یہ بات مشہور کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ متحدہ بیت المقدس ہی صہیونی ریاست کا ابدی دارالحکومت ہے۔ نیز یہ کہ اسرائیل بلدیہ اور صہیونی ریاست کے تمام ادارے بشمول سیکیورٹی اداروں کے القدس میں موجود تمام باشندوں کی خدمت پر مامور ہیں۔
متحدہ لیڈر شپ
سابق فلسطینی وزیر خالد ابو عرفہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بیت المقدس کے عوام گذشتہ کئی دھائیوں سے صہیونی ریاست کے ناجائز قبضے کے خلاف مختلف دستیاب وسائل کے ذریعے جدو جہد کررہے ہیں۔ فلسطینیوں نے صہیونی ریاست کی طرف سے ہر طرح کا لالچ اور دباؤ یکسر مسترد کر دیا ہے اور اپنے قول وعمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بیت المقدس میں صہیونی ریاستی اداروں کو نمائندہ نہیں سمجھتے۔
ایک سوال کے جواب میں سابق فلسطینی وزیر کا کہنا تھا کہ القدس کے فلسطینی باشندے جانتے ہیں کہ القدس کے اسلامی اور عرب تشخص کے دفاع اور بقاء کے لیے صرف دو ہی طریقے کار گر ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ بیت المقدس اور یہاں کے عوام کے حقوق کے لیے عالمی سطح پر آواز بلند کرنے کے لیے متحدہ فلسطینی لیڈرشپ تشکیل دی جائے جو بین الاقوامی برادری کے سامنے بیت المقدس میں جاری صہیونی ریاست کی غاصبانہ پالیسیوں کو بے نقاب کرے اور ساتھ ہی ساتھ القدس کی اسلامی اور عرب تاریخ ، تہذیب اور تشخص کی بقاء کے لیے موثر طریقے سے سفارتی جنگ لڑے۔ عالمی برادری کے سامنے یہ آواز اٹھائی جائے کہ اوسلو معاہدے کی رو سے اسرائیل بھی بیت المقدس میں یک طرفہ اقدامات نہ کرنے کا مطالبہ تسلیم کرچکا ہے۔ مگر اس فیصلے کے علی الرغم بیت المقدس کی تاریخی اور اسلامی حیثیت کو تبدیل کرنے کے لیے سازشیں جاری و ساری ہیں۔
دفاع القدس کا دوسرا اسلوب فلسطینی لیڈرشپ کے ساتھ ساتھ عالمی اور علاقائی سطح پر ایک نمائندہ کونسل تشکیل دی جائے جو بیت المقدس کے عوام کے حقوق کے لیے پوری قوت اور جرات کے ساتھ مقدمہ لڑے۔ ایک ایسی کونسل جس میں فلسطینی لیڈرشپ کے ساتھ ساتھ عالمی اور علاقائی سطح کے نمائندہ لوگوں کو شامل کیا جائے جو القدس کے باشندوں کے تمام سلوب شدہ حقوق فراہم کرنے بالخصوص حق خود ارادیت کے حصول میں ان کی مدد کرے۔
مقامی انتخابات
فلسطین میں آٹھ اکتوبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سابق فلسطینی وزیر برائے القدس امور خالد ابو عرفہ نے کہا کہ اگر بلدیاتی انتخابات کی 150 مقامی نشستوں پر شفاف انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا جا تا ہے تو مجموعی تاثر یہی ہو گا کہ انتخابات شفاف رہے ہیں مگر اس وقت میدان سیاست کی موجودہ صورت حال سے تشویش لاحق ہے کیونکہ فلسطینی شہریوں میں عوام اور سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم کے لیے جس نوعیت کی آزادی اور شفافیت درکار ہے وہ دکھائی نہیں دیتی۔
ایک سوال کے جواب میں خالد ابو عرفہ کا کہنا تھا کہ فلسطینی شہروں میں انتخابی مہم کے موجودہ ماحول میں گھٹن کی فضاء موجود ہے۔ ایک طرف فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی ادارے سیاسی جماعتوں کو آزادانہ سیاسی عمل سے روک رہے ہیں تو دوسری طرف صہیونی فوج کی ریاستی دہشت گردی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ بہ ظاہر فلسطینی اتھارٹی کا طرز عمل متوازن لگ رہا ہے مگر اتھارٹی کے ماتحت سیکیورٹی اداروں کا چلن کسی اور طرح اشارہ کر رہا ہے۔ ممکن ہے کہ موجودہ صورت حال میں انتخابی عمل آگے بڑھے مگر انتخابات کے التواء یا منسوخی کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ انتخابات کی منسوخی کی صورت میں اس کے جواز بھی تراش لیے جائیں گے۔