قابض صہیونی ریاست کی جانب سے فلسطینیوں سے انتقامی پالیسی کے مظاہر آئے روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ صہیونی دشمنوں کی انتقامی پالیسی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ غزہ کی پٹی سے باہر طبع کی گئی اسکول کی نصابی کتابیں بھی غزہ کے اسکول کے بچوں تک پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔
فلسطینی وزارت تعلیم کے سیکرٹری بصری صالح نے ایک بیان میں احتجاج کیا ہے کہ اسرائیل نے غرب اردن میں طبع کی گئی کتابیں غزہ میں طلباء تک پہنچانے سے روک رکھی ہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں طلباء نصابی کتب سے محروم ہیں۔ ان کا کہنا ہے جب اسرائیلی بارڈر انتظامیہ سے اس بارے میں بات کی جاتی ہے تو وہ ٹال مٹول کرتےہوئے یہ کہہ دیتے ہیں انہیں اعلیٰ حکام کی طرف سے ہدایت نہیں دی گئی۔ اس لیے جب اعلیٰ حکام اجازت دیں گے اس کے بعد ہی غزہ کی پٹی کو کتابیں ارسال کی جائیں گی۔
سیکرٹری تعلیم کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں طباعت کے محدود انتظامات کے باعث 3 لاکھ کتابیں غرب اردن کے چھاپہ خانوں میں طباعت کے عمل سے گذاری جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دوسری، تیسری، چوتھی جماعت کی کی ریاض، سائنس اور تیسری اور چوتھی کلاس کی حیاتیات کی کتابیں غرب اردن کے چھاپہ خانوں میں پرنٹ کی گئی ہیں۔ کتابیں تیار حالت میں موجود ہیں مگر اسرائیلی انتظامیہ انہیں غزہ کی پٹی میں لے جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ فلسطینی محکمہ تعلیم کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ اسرائیلی انتظامیہ دانستہ طورپر غزہ کی پٹی کے لاکھوں طلباء طالبات کو انتقامی سیاست کی بھینٹ چڑھا رہی ہے۔ تکنیکی طورپر کتب کو غزہ کو ترسیل میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ٹال مٹول کا مقصد فلسطینیوں کے بچوں کو ان پڑھ رکھنے کی صہیونی پالیسی کا تسلسل ہے۔
خیال رہے کہ کل اتوار سے فلسطین میں نئے تعلیمی سال کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے۔ قریبا بارہ لاکھ طلباء وطالبات نئے تعلیمی سفر پرگامزن ہیں۔