اردن کی مارکیٹ میں اسرائیل کی دیگر مصنوعات کے ساتھ ساتھ موسمی پھلوں کی بھی بھرمار ہے تاہم مقامی اور دوسرے ملکوں کے پھلوں کے ساتھ صہیونی پھلوں کو کڑا مقابلہ بھی درپیش ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے ایک رپورٹ میں اردن میں صہیونی پھلوں کی بھرمار اور صہیونیوں کے اس تجارتی حربے کے مضمرات پر روشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اردن پھلوں کی خریداری کی ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ وہ کم سے کم نرخوں پر اردنی مارکیٹ میں اپنے پھلوں کی رسائی یقینی بنائے تاکہ صہیونی ریاست کو تجارتی فواید حاصل ہو سکیں۔ صارفین کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے صہیونی تاجروں نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اگائے جانے والے پھلوں کی قیمتیں دیگر پھلوں کی نسبت بہت کم رکھی ہیں۔ قیمتوں کی کمی دراصل اسرائیل کاایک حربہ ہے جس کے ذریعے اس نے اردن اور بعض دوسرے پڑوسی عرب ملکوں کی مارکیٹ میں اپنے پنجے گاڑنے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔
اس وقت اردن کی مارکیٹ میں پھلوں اور سبزیوں میں سب سے زیادہ اسرائیل کی کاشت کردہ سبزیاں دکھائی دیتی ہیں۔
چونکہ عوام کا ایک بڑا حلقہ ایسا ہے جو اسرائیلی لیبل والی اشیاء اور فروٹ خریدنے سے گریز کرتا ہے مگر صہیونی حکام اس کے باوجود پھلوں کو کسی نا کسی طرح فروخت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات اس کا الٹ ہوتا ہے۔ اسرائیلی تاجر دوسرے ملکوں کے آموں پر اسرائیل کا اسٹکر[لیبل] لگا کر فروخت کرتے ہیں۔
لیبل کی دھوکہ دہی
اردنی حکومت کی طرف سے اسرائیل کی طرف سے لائی گئی تمام مصنوعات پر صہیونی ریاست کا لیبل لگا دیتی ہے تاکہ صارفین کو اس کی خریداری میں اپنی مرضی کا اختیار دیا جا سکے۔ خاص طور پر دوسرے ملکوں کے آم پر باقاعدہ لیبل لگایا جاتا ہے۔اسرائیلی تاجر ایک حربہ یہ بھی استعمال کرتے ہیں کہ دوسرے ملکوں کے سستے پھلوں پر اسرائیل کا لیبل لگانے کے بعد انہیں اردنی مارکیٹ میں سستے داموں فروخت کرتے ہیں۔
اردن کے ایک مقامی تاجر نے قدرے ہچکچاہٹ کے انداز میں کہا کہ ہم اسرائیلی لیبل والے آم خریدنے پر اس لیے مجبور ہیں کیونکہ یہ آم مارکیٹ میں دوسرے ملکوں کے آموں کی نسبت قیمت میں سستا ہے۔
اردنی تاجر کا کہنا تھا کہ ہم اسرائیل سے بھی آم خرید کرتے ہیں کیون کہ ہماری مجبوری ہوتی ہے مگر بعض اوقات اسرائیل سے لائے گئے آموں اور دیگر پھلوں پر کسی اور ملک کا لیبل لگا ہوتا ہے۔ یہ بھی اسرائیل کا ایک حربہ ہے جس کا مقصد کم سے کم قیمت پر اپنے آم اردنی مارکیٹ میں فروخت کرانا ہے۔
اردنی تاجر کا کہنا تھا کہ ہم خود بھی بعض اوقات اسرائیلی لیبل کو ہٹا کر اس کی جگہ بھارتی، پاکستانی یا سوڈانی لیبل لگاتے ہیں۔ تاکہ کوئی گاہک اسرائیلی ہونے پر اعتراض نہ کرے،
سیکڑوں ٹن آم اور گاجر
حال ہی میں اردنی وزارت زراعت نے انکشاف کیا تھا کہ عمان حکومت نے اسرائیل سے آم اور گاجر کی بھاری مقدار امپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارت زراعت کا کہنا تھا کہ اردنی اور اسرائیلی تاجر ہرسال پھلوں اور سبزیوں کے لین دین کے بڑے بڑے معاہدے کرتے ہیں۔ ان معاہدوں کے بعد اسرائیل سے پھلوں اور سبزیوں بالخصوص آم اور گاجر کے سیکڑوں ٹن اردنی مارکیٹ میں فروخت کے لیے لائے جاتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں سال جولائی میں اسرائیل سے 504 ٹن آم اور 100 ٹن گاجر خرید کی گئی تھی۔ اردنی حکومت کے ذریعے کا کہنا ہے کہ اسرائیلی پھلوں کی خریداری کی ایک بڑی وجہ معیار کی بہتری بھی ہے۔ صہیونی تاجر ان تمام شرائط کی مکمل پاسداری کرتے ہیں جو اردنی حکومت کی طرف سے کوئی بھی چیز اردنی مارکیٹ میں لانے کے لیے عاید کی گئی ہیں۔
اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ تحریک کے مطالبات
اردن میں جہاں ایک طرف اسرائیل اپنی مصنوعات کو زیادہ سے زیادہ فروخت کرنے کے لیے کوشاں ہے وہیں اردن میں صہیونی پھلوں، سبزیوں اور دیگر اشیاء کے بائیکاٹ کی تحریک بھی جاری ہے۔
اردنی دفاع وطن و مزاحمت تعلقات کمیٹی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ عمان میں لائی گئی گاجر کے پانچ کلو کے پیکٹ اسرائیل کے ’’میخا‘‘ نامی فارم سے لائے جاتے ہیں جب کہ آم ’’یونتایم‘‘ یہودی کالونی سے لائے جاتے ہیں۔ یہ دونوں پھل اسرائیل کے زیرقبضہ شامی علاقے وادی گولان میں اگائے جاتے ہیں۔
کمیٹی کی طرف سے اردنی شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اسرائیلی پھلوں اور سبزیوں کی خریداری کا کھل کر بائیکاٹ کریں اور خریداری سے قبل اشیاء پر لگے لیبل کو ضرور چیک کریں۔
ادھر اردن کے سماجی کارکن اور زرعی مصنوعات کی برامدی کونسل کے چیئرمین سلیمان الحیاری کا کہنا ہے کہ وزارت زراعت اسرائیلی زرعی اجناس کی خریداری روکنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا کہ اردن اور اسرائیل کے درمیان طے پائے نام نہاد امن معاہدے کے تحت دونوں ملکوں میں آزادانہ تجارت بھی شامل ہے۔