انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم نے فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام سیکیورٹی اداروں کے حراستی مراکز میں ڈالے گئے سیاسی کارکنوں، سماجی اور انسانی حقوق کے اداروں سے وابستہ کارکنان اور طلباء کے ساتھ ہونے والے غیرانسانی سلوک کا معاملہ اٹھایا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق برطانیہ کے صدر مقام لندن میں قائم عرب ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام سیکیورٹی ادارے جیلوں میں ڈالے گئے اسیران سے غیرانسانی سلوک کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عباس ملیشیا کی طرف سے نہ صرف یہ کہ عام شہریوں کی روز مرہ کی بنیاد پر گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے بلکہ زیرحراست شہریوں پر ہولناک تشدد کیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عباس ملیشیا اوسطا ہر ماہ کم سے کم 600 فلسطینیوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں اذیتوں کو نشانہ بناتی ہے۔
انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ اسے عباس ملیشیا کی جیل میں قید ایک انیس سالہ فلسطینی نوجوان اسامہ حازم خضر الفاخوری کے اہل خانہ کی طرف سے ایک مکتوب موصول ہوا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ الفاخوری کو عباس ملیشیا نے رام اللہ سے 24 اگست 2016ء کو اغواء کیا۔
اسیر کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ عباس ملیشیا کے اہلکاروں نے اسامہ الفاخوری کو گرفتاری کے وقت اس کے اہل خانہ کے سامنے ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کے بعد اسے فلسطینی اتھارٹی کے ایک حراستی مرکز میں لے جایا گیا جہاں اس کے ساتھ غیرانسانی سلوک کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
اسیر کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ان کے بیٹے کی حالت تشویشناک ہے مگر فلسطینی سیکیورٹی ادارے اس پر تشدد کا سلسلہ بدستورجاری رکھے ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ انیس سالہ اسامہ الفاخوری ایک نجی فلاحی ادارے’’انین القید‘‘ سے وابستہ ہے اور تنظیم کے فوٹو جرنلسٹ کے طورپر خدمات انجام دے رہا تھا، عباس ملیشیا کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے الفاخوری کو ممنوعہ علاقے میں تصاویر اتارنے پر حراست میں لیا ہے۔
خیال رہے کہ عباس ملیشیا کی جیلوں میں قید کیے گئے سیاسی اور سماجی کارکنوں اور طلباء پر بہیمانہ تشدد کا یہ پہلا کیس نہیں۔ اس سے قبل بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں متعدد بار فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام حراستی مراکز میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھا چکی ہیں۔