اکیس اگست 1969ء کو ایک انتہا پسند یہودی کی جانب سے مسجد اقصیٰ میں آگ لگانے کی مذموم جسارت کو آج 47 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ یہ دن انسانی تاریخ کا ایک سیاہ روز ہے جب مسلمانوں کے پہلے قبلہ کو ایک جنوبی یہودی دہشت گرد نے نفرت کا نشانہ بنانے کی مذموم کوشش کی تھی۔
آج سے سینتالیس سال پیشتر پیش آنے والے واقع کے کچھ عینی شاہدین آج بھی حیات ہیں۔ انہی میں مسجد اقصیٰ کے امام وخطیب اور ممتاز عالم دین الشیخ عکرمہ صبری بھی شامل ہیں۔ عکرمہ صبری اس وقت مسجد اقصیٰ میں قائم ایک مدرسے کے مدرس تھے۔ مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتےہوئے انہوں نے قبلہ اول کی آتش زدگی کے حوالے سے حیران کن واقعات بیان کیے۔
سپریم اسلامک کونسل کے چیئرمین الشیخ عکرمہ صبری نے بتایا کہ جب انہیں مسجد اقصیٰ میں آتش زدگی کی اطلاع ملی تو وہ صبح کا وقت تھا۔ مسجد میں آگ لگانے کا واقعہ مقامی وقت کے مطابق صبح پونے سات بجے پیش آیا۔ جس جس کو قبلہ اول میں آتش زدگی کی خبر ملتی وہ سب کام چھوڑ چھاڑ کر مسجد کی طرف دوڑتا۔ میں بھی دیگر لوگوں کے ہمراہ مسجد اقصیٰ کی طرف دوڑ پڑا۔ مسجد میں لگی آگ کا دھواں اور شعلے دور سے دکھائی دے رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ’’ یہ اللہ کی خاص منشا تھی کہ اس نے مجھے بھی قبلہ اول میں لگائی گئی یہودی آگ کو بجھانے کا شرف حاصل ہوا۔ آتش زدگی کے لمحات اس قدر المناک تھے کہ کئی عشرے بیت جانے کے بعد بھی وہ لمحات ذہن سے نہیں نکلتے۔ میں نے جو کپڑے پہن رکھے تھےآگ بجھاتے ہوئے وہ جگہ جگہ سے جھلس گئے۔ میں نے آج تک وہ کپڑے سنبھال رکھے ہیں۔ یہ آتش زدگی تو تھی مگرعالم اسلام کے لیے ایک ’انذار‘ اور وارننگ تھی۔ قدرت مسلم امہ کو قبلہ اول کےدفاع کے لیے متوجہ کرنا چاہتی تھی۔ اس واقعے نے پوری دنیا پریہ ثابت کیا کہ مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہروقت خطرے میں ہے‘‘۔
الشیخ عکرمہ صبری نے کہا کہ قبلہ اول میں آگ بجھانے کے لیے فلسطینی شہریوں نے بساط بھر کوشش کی۔ کوئی پانی کے مٹکے اٹھا کر لاتا اور کوئی مٹی ڈالتا۔ عورتیں، بچے، بوڑھے اور جواں سب قبلہ کو بچانے میں لگ گئے تھے۔ ہرایک کی زبان پر تکبیر و تسبیح تہلیل کے ساتھ دعائیں تھیں آنکھوں اشکوں سے تر تھیں۔
الشیخ عکرمہ صبری اس وقت مسجد سے ملحق ایک اسکول میں استاد تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم لوگ نماز فجرسے فراغت کے بعد کچھ دیر کے لیے مسجد ہی میں بیٹھ جایا کرتے۔ بعض نمازی اشراق کی نفل نماز ادا کرنے کے بعد گھروں کو لوٹتے۔
یہودی دہشت گرد نے مسجد میں آتش زدگی کے لیے وہ وقت چنا جب تمام نمازی مسجد سے نکل کر گھروں کو لوٹ آتے ہیں۔ چنانچہ مائیکل ڈینس روہن نے صبح پونے سات بجے مسجد میں داخل ہو کر اس میں آتش گیر مادہ چھڑکا اسے دیا سلائی سے آگ لگا دی۔ اس کے بعد آناً فاناً آگ بھڑک اٹھی۔ آگ کے شعلے دور دور سے دیکھے جا سکتے تھے۔ اگر فلسطینی شہری اپنی جانوں پر کھیل کر فوری طورپر قبلہ اول میں آگ بجھانے نہ آتے تو مسجد کا بچنا محال تھا۔
الشیخ عکرمہ نے بتایا کہ بیت المقدس کے شہریوں کو آتش زدگی کی خبر واقعے کے کوئی دس یا پندرہ منٹ کے بعد پہنچی۔ آتش زدگی کی خبر ملتے ہی ہر شخص دوڑا چلا آیا۔ جب میں مسجد میں پہنچا تو اس وقت آگ قبلہ اول کے مشرقی حصہ میں پھیل رہی تھی، جہاں پر لکڑی کا کام کیا ہوا تھا۔ آگ تیزی کے ساتھ لکڑی والے چھت کے حصے میں داخل ہوئی تاہم مغرب کی سمت اس لیے نہ بڑھ سکی وہاں سیمٹی چھت تھی۔
انہوں نے بتایا کہ صہیونی پولیس بہت تاخیر سے پہنچی مگر ہمیں اطلاع ملی تھی کہ فائر بریگیڈ اور امدادی اداروں کے کارکنوں کو اسرائیلی پولیس نے روک لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ فائربریگیڈ کا عملہ بہت تاخیر سے پہنچا۔ صہیونی فوج اور پولیس نے فلسطینی رضاکاروں کو آگ بجھانے سے روکنے کی کوشش کی اور خود مداخلت کرنے کی کوشش کی تو فلسطینیوں نے صہیونیوں کو پیچھے دھکیل دیا۔ اسرائیلی پولیس کی طرف سے پریس کو ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ آگ شارٹ سکرٹ کی وجہ سے لگی ہے۔ آگ بجھانے کا عمل کوئی12 گھنٹے تک جاری رہا۔
فلسطین کے دوسرے علاقوں البیرہ رام اللہ، بیت جالا، بیت لحم، ساحور اور الخلیل سے امدادی کارکن اور فائر بریگیڈ کے رضا کار چل پڑے تھے مگرانہیں صہیونی فوج نے راستےمیں روک لیا۔ چنانچہ وہ شام کو عصر کے بعد مسجد تک پہنچ سکے۔ حالانکہ وہ ڈیڑھ سے دو گھنٹے کے اندر اندر پہنچ سکتے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں الشیخ عکرمہ صبری نے بتایا کہ مسجد اقصیٰ میں آتش زدگی کا سانحہ بلاشبہ المناک ہے مگر اس کا ایک مثبت نتیجہ عالم اسلام کے اتحاد کی صورت میں سامنے آیا۔ صہیونی حکومت جو قبلہ اول پربالادستی اور مکمل قبضے کی منصوبہ بندی کررہی تھی اس کی وہ سازش بری طرح ناکام بنا دی گئی اور قبلہ اول کی نگرانی کی ذمہ داری اردن کی حکومت کو سونپی گئی۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں الشیخ عکرمہ صبری نے کہا کہ آتش زدگی کے سانحے کوبیتے پانچ عشرے ہونے کو ہیں مگر قبلہ اول اس وقت بھی ماضی ہی کی طرح یہودیوں اور انتہا پسند صہیونیوں کے ہاتھوں سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ پوری عرب اور مسلم دنیا کا مسئلہ ہے۔ اس مقدس مقام کے دفاع کے لیے عالم اسلام کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہو گا۔