”الحرمین الشریفین کے تحفظ اور فلسطین و کشمیر کی آزادی تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔ امت مسلمہ اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کرے تو تمام مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔
یہ بات مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے زیر اہتمام اسلام آباد میں منعقدہ ایک روزہ بین الاقوامی اتحاد امت وعظمت حرمین شریفین کانفرنس کے اختتام پر جاری کردہ اعلامیے میں کہی گئی ہے۔
یہ اعلامیہ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مولانا علی محمد ابو تراب نے پڑھ کر سنایا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ”الحرمین الشریفین سمیت مقدسات اسلامیہ کی حفاظت ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔حج کے بہترین انتظامات پر سعودی عرب کی حکومت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں”۔
”حرمین شریفین میں فساد پھیلانے والے کسی بھی معافی کے مستحق نہیں۔ اسلام امن وآشتی کا دین ہے۔دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ کسی بھی انسان کا ناحق قتل ایک ناقابل معافی جرم ہے اور اسلام اس کی سختی سے مذمت کرتا ہے”۔
قبل ازیں مفتیِ اعظم ترکی شیخ رحیمی یاران نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امت مسلمہ کے مسائل کا حل اتفاق و اتحاد میں مضمر ہے مگر آج مسلمان باہم دست و گریباں ہوکر دین اسلام کو نقصان پہنچارہے ہیں۔
انھوں نے بین الاقوامی اتحاد امت کانفرنس میں شرکت کی دعوت پر میزبانوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پاکستانی بھائیوں کی محبت کو دیکھ کر ایسے لگا ہے کہ میں اپنے ہی دوسرے گھر میں آیا ہوں۔اس پر میں ان کا بے حد ممنون ہوں۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ پاکستان کے علماء کرام دہشت گردی پر آمادہ گمراہ لوگوں کو واپس لانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔انھیں گمراہی سے نکالنے کا علم اور آ نکھ بھی صرف اور صرف پاکستانی علماء کے پاس ہے ۔امریکا کی ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن کے مسلمانوں کے بارے میں مثبت خیالات بھی علماء کرام کی کاوشوں کے مرہون منت ہیں اور ان کے کردار کی وجہ سے ہی مس کلنٹن کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ دن کبھی نہیں آ سکتا کہ کوئی مسلمانوں کے مقدس مقامات کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھے۔ مسلمان سعودی عرب میں مقامات مقدسہ کے تحفظ کے لیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
پرویز رشید نے کہا کہ دنیا بھر کی انسانیت کو بچانے کے لیے مسلمانوں کے سر پر تاریخ نے جو ذمہ داری ڈالی ہے، ہم اس فریضے کو ضرور پورا کریں گے۔انھوں نے عصر حاضر کے چیلنجز سے کامیابی سے نمٹنے کے لیے امت مسلمہ کے درمیان اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جس کو اسلحے کے زور پر واپس نہیں لایا جا سکتا،اس کو علماء کرام کی تعلیمات کے ذریعے واپس راہ راست پر لایا جا سکتا ہے۔ایک مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے خلاف سازش نہیں کرسکتا۔ اسلام امن، ہم آہنگی اور رواداری کا درس دیتا ہے اور اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کانفرنس میں متعدد حکومتی شخصیات سمیت ملک کی سرکردہ دینی وسیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ میں جمعیت اہلحدیث کے سربراہ اور ممبر سینٹ آف پاکستان علامہ پروفیسر ساجد میر، رکن اسمبلی اور ایوان زیریں کی دینی کمیٹی کے رکن حافظ عبدالکریم، جمیعت علمائے اسلام [ف] کے رہنما اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری، سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ، جمعیت علمائے اسلام [س] کے سربراہ مولانا سمیع الحق، جمیعت علمائے پاکستان کے سربراہ اویس احمد نورانی، تحریک دفاع الحرمین الشریفین کے رہنما فضل الرحمان خلیل اور دیگر نے شرکت کی۔
جمعیت اہلحدیث کے زیر اہتمام ہونے والی اس کانفرنس میں متعدد عرب اور یورپی ملکوں سے آئے ہوئے وفود نے بھی شرکت کی۔ ان میں سعودی عرب کے سیکرٹری امور اسلامیہ الشیخ عبدالرحمان الغنام، مسجد اقصی کے خطیب اور القدس کے سابق مفتی علامہ عکرمہ صبری، مفتی استنبول الشیخ رحمی یاران، بحرینی مجلس شوری کے رکن عادل المعاودہ اور اسلام آباد میں متعین عرب اور اسلامی ممالک کے سفراء کی ایک بڑی تعداد بھی کانفرنس میں موجود تھی۔