ترکی کی پارلیمنٹ نے اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات کی بحالی سے متعلق جون میں طے شدہ مصالحتی معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔
ترکی اور اسرائیل کے درمیان چھے سال کی سفارتی اور سیاسی کشیدگی کے بعد 28 جون کو دوطرفہ تعلقات کی بحالی سے متعلق یہ معاہدہ طے پایا تھا۔ اسرائیلی پارلیمان پہلے ہی جون میں اس معاہدے کی منظوری دے چکی ہے لیکن ترکی میں 15 جولائی کو صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کے بعد اس معاہدے کو رائے شماری کے لیے پارلیمان میں پیش نہیں کیا جا سکا تھا۔
اسرائیل اور ترکی کے درمیان 31مئی 2010ء کو غزہ کے لیے بھیجے گئے امدادی بحری جہازوں پر مشتمل فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی کمانڈوز کے حملے کے بعد تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔ اس حملے میں نو ترک رضاکار شہید ہو گئے تھے۔ اس واقعے کے ردعمل میں ترکی نے اسرائیل سے سفارتی ،اقتصادی اور سیاسی تعلقات منقطع کر لیے تھے۔
اسرائیل اس حملے پر ترکی سے پہلے ہی معافی مانگ چکا ہے۔اب اس معاہدے کے تحت ترکی کی جانب سے قانونی دعووں کی واپسی کی صورت میں متاثرہ خاندانوں اور زخمیوں کو دو کروڑ ڈالرز کی رقم ادا کرے گا اور یہ رقم معاہدے پر عمل درآمد کے آغاز کے بعد پچیس ایام کار کے دوران متاثرین کو ادا کر دی جائے گی۔
اناطولو نیوز ایجنسی کے مطابق معاہدے کے تحت اسرائیلی حکومت کے احکام کے تحت یا انفرادی طور پر امدادی بحری جہاز پر حملے میں کردار ادا کرنے والے اسرائیلی شہریوں کے خلاف دعویٰ کرنے کی کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی جائے گی۔ اس کے تحت اب دونوں ممالک اپنے اپنے سفیروں کا تقرر کریں گے اور یوں ان کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات بحال ہو جائیں گے۔