فلسطین میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے صہیونی فوج اور پولیس کے مظالم کے ایک نئے حربے کا پردہ چاک کیا ہے اور بتایا ہے کہ فلسطینیوں کو گرفتار کرتے وقت انہیں ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے حتیٰ کہ شہریوں کو بجلی کے جھٹکے لگائے جاتے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق کلب برائے اسیران کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ ’’عتصیون‘‘ قید خانے میں بند کیے گئے درجنوں فلسطینیوں کو گرفتاری کے وقت ان کے گھروں اور بعد ازاں چیک پوسٹوں پر بجلی کے جھٹکے لگائے گئے ہیں۔
انسانی حقوق مرکز کی مندوبہ جاکلین فرارجہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے حال ہی میں ’’عتصیون‘‘ جیل میں قیدیوں سے ملاقات کی۔ قیدیوں نے بتایا کہ صہیونی فورسز نے انہیں گرفتاری کے وقت بجلی کے جھٹکے لگائے اور ان پر ہولناک تشدد کیا تھا۔ تشدد کا نشانہ بننے والے فلسطینیوں میں ایک 16 سالہ لڑکا احمد یسری مسودہ بھی شامل ہے، جس کا تعلق الخلیل شہر سے ہے۔ مسودہ کو گرفتاری کے بعد ایک چیک پوسٹ پر لے جایا گیا جہاں اسے بجلی کے کرنٹ لگائے گئے۔
یسری مسودہ نے بتایا کہ اسرائیلی فوجی اسے بندوقوں کے بٹ سے تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ بعد ازاں چیک پوسٹ پر لے جانے پر اس کے سر اور کندوں پر بجلی کے جھٹکے لگائے جاتے۔ تشدد کے دوران اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی رہی اور اس کی چیخ پکار اور آہ و فریاد پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس کا کہنا ہے کہ گرفتاری کے بعد اسے گاڑی میں رسیوں سے باندھ کر پھینک دیا گیا اور اسرائیلی فوجی بار بار اس پر کھڑے ہو جاتے تھے۔
انسانی حقوق کی مندوبہ کا کہنا ہے کہ اسیر مسودہ پر وحشیانہ تشدد اور بجلی کے جھٹکوں کے باعث اس کی حالت تشویشناک ہے اور اس کے بازو اور ہاتھ اچھی طرح کام نہیں کر رہے ہیں۔
سماجی کارکن فرارجہ نے بتایا کہ انہوں نے عتصیون جیل میں 19 سالہ راشد موسیٰ صلیبی، 38 سالہ ساھر ابراہیم غطاشہ، 31 سالہ عبداللہ زیادہ الرجبی، 20 سالہ حازم طارق حدوش اور 25 سالہ محمد خلف الصباح سے بھی ملاقات کی۔ ان تمام قیدیوں نے بتایا کہ صہیونی فوجیوں نے انہیں گرفتاری کے وقت بجلی کے جھٹکے لگائے، بندوقوں کے بٹ سے تشدد کیا اور کئی روز تک تشدد کے ساتھ بھوکا پیاسا رکھا گیا۔