اسرائیلی جیلوں میں کئی سال تک علاج سے محروم رہنے والا فلسطینی رہائی کے بعد بھی جاں بر نہ ہو سکا اور صہیونی غفلت کا شکار رہنے کے باعث آخر کار موت وحیات میں رہنے کے بعد دم توڑ گیا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل کے دورا قصبے کے رہنے والے 46 سالہ نعیم یونس الشوامرہ کو صہیونی حکام نے سنہ 1995ء کو حراست میں لیا تھا۔ گرفتار کے کچھ عرصے بعد اسے جیل میں پٹھوں کی تکلیف شروع ہوئی۔ دوران حراست بھی اس کی حالت کئی بار تشویشناک ہوتی رہی مگر اسرائیلی جیل عملے نے اسے کسی قسم کی طبی سہولت مہیا نہیں۔ یوں اس نے 19 سال اس تکلیف میں گذارے۔ اگرچہ شوامرہ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی مگر سنہ 2011ء میں فلسطینی تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے دوران اسے رہا کر دیا گیا تھا۔ رہائی کے بعد شوامرہ کے اہل خانہ نے اس کے علاج کے لیے سرتوڑ کوشش کی مگر طویل غفلت کے نتیجے میں اس کا بگڑا ہوا مرض ختم نہ کیا جا سکا۔ شوامرہ نے رہائی کے بعد پانچ سال اسی موت وحیات کی کشمکش میں بسرکیے اور آخر کار گذشتہ روز دم توڑ گیا۔
ادھر فلسطینی اتھارٹی کے محکمہ امور اسیران نے سابق اسیر کی موت پر اسرائیل کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ امور اسیران کے چیئرمین عیسیٰ قراقع کا کہنا ہے کہ صہیونی زندانوں میں قید کے دوران یونس شوامرہ کو بنیادی طبی سہولیات فراہم نہ کیے جانے سےاس کا پٹھوں کا مرض بگڑ گیا۔ صہیونی حکام کو اچھی طرح معلوم تھا کہ شوامرہ کی حالت تشویشناک ہے مگر اس کے باوجود غفلت اور پرلے درجے کی لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے موت سے ہمکنار کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔
صہیونی جیلروں کی غفلت کی بھینٹ چڑھنے والے فلسطینی شہری کے دو بچے ہیں۔ شہید کی والدہ بھی حیات ہیں۔ بیٹے کی المناک موت پر والدہ ، بچے اور بیوہ سمیت پورا کنبہ غم سے نڈھال ہے۔