اسرائیلی پولیس کی زیرحراست فلسطینی مزاحمت کار اور فدائی حملے کے منصوبہ ساز نے انکشاف کیا ہے کہ اس نے بیت المقدس میں یہودی بس میں داخل ہونے کے باوجود فدائی حملہ اس لیے نہ کیا کیونکہ بس میں بچے بھی تھے۔ میرے ضمیر نے یہ گورا نہیں کیا کہ میں فدائی حملے میں غاصب صہیونیوں کو ہلاک کرتے ہوئے کم سن بچوں کوبھی قتل کردوں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی پولیس کی تحویل میں موجود مقدمات کا سامنا کرنے والے فلسطینی نوجوان علی ابو حسن کا کہنا ہے کہ میں نے 14 جولائی بہ روز جمعرات بیت المقدس میں ایک یہودی بس میں گھس کر اسے فدائی کارروائی کے دوران تباہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا مگر آخری وقت میں جب میں نے دیکھا کہ بس میں بچے بھی ہیں تو میں نے فدائی حملے کا منصوبہ ترک کردیا تھا۔ تاہم غاصب صہیونیوں پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں متعدد صہیونی زخمی ہوگئے تھے۔ پولیس نے علی ابو حسن کو حراست میں لے لیا تھا۔
علی ابو حسن کا یہ بیان اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں بھی شائع ہوا ہے جس میں اس کا کہنا ہے کہ اسے فدائی حملے کا کوئی خوف نہیں تھا مگر وہ بچوں کوہلاک نہیں کرنا چاہتا تھا۔
خیال رہے کہ 20 سالہ علی ابو حسن الخلیل شہر کی جامعہ پولی ٹیکنیک کا طالب علم ہے۔ اس کے والدین اور دیگر اہل خانہ بیت اولا میں رہائش پذیر ہیں اور ان کے خاندان کو اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کا مقرب خیال کیا جاتا ہے۔
عبرانی میڈیا کے مطابق فلسطینی نوجوان نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ میں فدائی حملہ کرنا چاہتا تھا مگر بس میں یہودیوں کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے جس کے باعث میں نے فدائی کارروائی سے اجتناب کیا ہے۔
اسرائیلی پولیس نے اسیر ابو الحسن کے خلاف پیش کردہ فرد جرم میں اس پر بارودی مواد تیار کرنے، یوٹیوب پر بم سازی کا طریقہ سیکھنے اور دیگر جنگی مہارتیں حاصل کرنے کا الزام عاید کیا ہے۔ اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ علی نے بیت المقدس میں یہودی بس پرحملے سے چند روز قبل اپنے گھر میں اپنی وصیت بھی لکھی تھی۔
خیال رہے کہ اسیر علی ابو حسن نے چودہ جولائی سنہ 2016 کو القدس میں ایک یہودی بس میں داخل ہوکر یہودی آباد کاروں پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں متعدد یہودی ہلاک اور زخمی ہوگئے تھے۔ اسرائیلی پولیس نے فلسطینی نوجوان کو حراست میں لے لیا تھا۔