اسرائیلی حکام نے بتایا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کے وسطی شہر رام اللہ میں سلواد کے مقام پر ’’عوفرا‘‘ کالونی میں شمولیت کے لیے 45 ایکڑ اراضی غلطی سے غصب کی گئی تھی۔
اسرائیل کے عبرانی اخبار’’ہارٹز‘‘ نے فلسطینیوں کی نجی ملکیتی اراضی غصب کیے جانے اور اس کے بارے میں غلطی تسلیم کرنے کی کہانی شائع کی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’عوفرا‘‘ یہودی کالونی میں سلواد قصبے کی 45 دونم[ایکڑ] ارضی شامل کرنے کا فیصلہ غلط تھا۔ یہ اراضی فلسطینی شہریوں ہی کی ملکیت تھی جسے یہودی کالونی میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے تھے۔
عوفرا کالونی کے قریب واقع فلسطینیون کی مذکورہ اراضی پر یہودی آباد کاروں کے چند مکان بھی تعمیر کیے جا چکے ہیں جہاں یہودی رہتے ہیں تاہم صہیونی انتظامیہ نے اس رقبے کو کالونی سے باہر کا علاقہ قرار دیا ہے۔ غلطی تسلیم کیے جانے کے باوجود مغصوبہ اراضی فلسطینی شہریوں کو واپس نہیں کی گئی ہے۔
یہاں یہ امر واضح رہے کہ صہیونی انتظامیہ نے مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں سیکڑوں یہودی کالونیوں بنا رکھی ہیں جن کے لیے لاکھوں ایکڑ فلسطینی اراضی غصب کی گئی ہے۔ عالمی قوانین کے تحت اسرائیلی کالونیاں ناجائز اور غیرقانونی ہیں مگر صہیونی ریاست عالمی پابندیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ان میں توسیع کا عمل بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ غرب اردن کے علاقوں میں مجموعی طور پر یہودی کالونیوں کی تعداد 130 بتائی جاتی ہے جن میں 5 لاکھ کے قریب یہودی آباد ہیں۔
سلواد کے مقام کی مذکورہ اراضی پر سنہ 1966ء میں اردن نے قبضہ کیا تھا مگر بعد ازاں اسرائیل نے یہ اراضی اردن سے چھین لی تھی اور اسے ’’عوفرا‘‘ کالونی کا حصہ قرار دیا تھا۔ فلسطینی شہریوں کی طرف سے اسرائیلی عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ صہیونی انتظامیہ نے 45 ایکڑ اراضی غیرقانونی طور پر قبضے میں لے رکھی ہے۔ صہیونی عدالت نے اپنے تازہ فیصلے میں تسلیم کیا ہے کہ مذکورہ اراضی پرغلطی سے قبضہ کیا گیا تھا۔
زمین کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والے ایک فلسطینی اور مقامی قانون دان توفیق جبارین کا کہنا ہے کہ اراضی پرقبضے کی غلطی تسلیم کرنا کافی نہیں۔ جب تک اراضی ان کے مالکان کو واپس نہیں کی جاتی اس وقت تک فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں ملے گا۔