ویسے تو مجموعی طورپر پوری فلسطینی قوم غاصب و قابض صہیونی ریاست کی انتقامی پالیسیوں کے نتیجے سنگین نوعیت کے مالی اور معاشی بحرانوں کا سامنا کر رہی ہے مگر فلسطین کے دو علاقے غزہ کی پٹی اور مقبوضہ بیت المقدس صہیونی ریاست کی امتیازی اور ظالمانہ پالیسیوں کا سب سے زیادہ نشانہ بن رہے ہیں۔ مرکزاطلاعات فلسطین کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیت المقدس میں بسنے والے تین لاکھ فلسطینی باشندے دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں اور ان کا شمار غربت کی لکیر سے نیچے والی آبادی میں ہوتا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بیت المقدس میں فلسطینی شہریوں کو درپیش معاشی مسائل اور ان کے اسباب ومحرکات پر روشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ میں بیت المقدس کے فلسطینی شہریوں کی غربت اور پسماندگی کے حوالے سے لرزہ خیز اعداد و شمار بیان کیے گئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی طرف سے بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں پر ہمہ نوع پابندیاں عاید ہیں۔ شہری آزادانہ نقل وحرکت سے محروم ہیں۔ شہر کے اندر انہیں کاروبار اور ملازمت کے مواقع میسر نہیں۔ شہر سےباہر دوسرے فلسطینی علاقوں میں انہیں جانے کی آزادانہ اجازت نہیں دی جاتی، جس کے نتیجے میں غربت اور بے روزگار کی شرح میں دن رات مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
فلسطین کے ایک تھینک ٹینک ‘اقتصادی ترقی مرکز‘ کی جانب سے ایک رپورٹ مرتب کی گئی جس میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران بیت المقدس میں فلسطینی شہریوں میں غربت اور بے روزگاری میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہوا۔ سنہ 2014ء میں تیار کردہ اعداد و شمار میں بتایا گیا تھا کہ بیت المقدس میں خط غربت سے نیچے زندگی بسرکرنے والے فلسطینیوں کی آبادی کا تناسب 82 فی صد ہے۔ جب کہ یہودی کالونیوں میں غربت کی شرح صرف 22 فی صد ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی آبادی اور یہودیوں کی کل غریب آبادی کل شرح مجموعی طورپر 49 فی صد ہے۔ سب سے زیادہ غربت مشرقی بیت المقدس میں ہے جہاں فلسطینی آبادی کی اکثریت ہے۔ سنہ 2013ء میں یہاں پر فلسطینیوں کی کل آبادی 67 فی صد تھی جب کہ سنہ 2006ء میں 66 فی صد آبادی کا اندراج کیا گیا تھا۔
دیوار فاصل کی تباہ کاریاں
القدس یونیورسٹی سے وابستہ فلسطینی تجزیہ نگار اور اقتصادی امور کے ماہر ڈاکٹرعبدالحمید کا کہنا ہے کہ مشرقی بیت المقدس میں غربت کی شرح میں بے قابو اضافہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مشرقی بیت المقدس کی تین لاکھ آبادی کئی سال سے خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ فلسطینی آبادی پر پچھلے تین عشرے ایسے گذرے ہیں جن میں ہرآنے والا دن ان کی معاشی پریشانیوں میں اضافے کا موجب بنا ہے۔
بیت المقدس میں غربت میں اضافے کے اسباب کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ القدس کے مشرقی حصے میں غربت کا ایک برا سبب غرب اردن اور بیت المقدس کےدرمیان تعمیر کی گئی نسلی دیوار ہے۔ اس دیوار نے فلسطینی آبادی کو نہ صرف باہم منقسم کرتے ہوئے ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے بلکہ مہنگائی، غربت اور بے رزگاری کے نہ ختم ہونے والے ایک نئے اور ظالمانہ سلسلے کا آغاز کیا ہے۔ صرف اس دیوار کی تعمیر کےباعث مشرقی بیت المقدس میں سنہ 2013ء اور 2014ء کے دوران غربت میں 8 فی اضافہ ہوا۔
ڈاکٹر عبدالحمید القاق کاکہنا ہے کہ اہالیان القدس پر ایک دوسرا بڑا بوجھ صہیونی فوج کی جگہ جگہ قائم کردہ چوکیاں ہیں جہاں آئے روز گذرنے والے فلسطینیوں کو توہین آمیز اور شرمناک نوعیت کی تلاشی اور تفتیش کے عمل سے گذرنا پڑتا ہے۔ مشرقی بیت المقدس کے شہریوں کے لیے غرب اردن سے تجارتی سامان لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
بیت المقدس کے ایک مقامی تاجر جبر الکالوتی کا کہنا ہے کہ بارہ کلو گرام چاول کا تھیلا مشرقی بیت المقدس کی العیزریہ کالونی میں 25 شیکل میں فروخت ہوتا ہے جب کہ پرانے بیت المقدس شہر میں اسی تھیلے کی قیمت 120 شیکل تک پہنچ جاتی ہے۔ صہیونی انتظامیہ کی طرف سے فلسطینی تاجروں اور دکانداروں کو سامان لے جانے سے سختی سے روکا جاتا ہے۔ جگہ جگہ پابندیوں اور پکڑ دھکڑ کے خوف سے فلسطینی شہریوں نے کاروبار کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔
کریک ڈاؤن کے مکروہ حربے
فلسطینی اکنامک ڈویلپمنٹ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق مشرقی بیت المقدس کے 89 فی صد خاندان ایسے ہیں جن کاکم سے کم ایک فرد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسرکر رہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ القدس کے شہریوں کی غربت کی دوسری بڑی وجہ فلسطینی شہریوں کی اندھا دھند گرفتاریاں ہیں۔ کام کاج کے لائق ہزاروں فلسطینی نوجوانوں کو آئے روز وحشیانہ کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ ہلکی پھلکی ملازمت کرنےوالوں کو نام نہاد شبہات کی آڑ میں ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی مقامی ادارہ فلسطینیوں کو بھرتی کرنے سے گریزاں ہے اور اگر کسی فلسطینی نوجوان کو کوئی روزگار مہیا کرتا ہے تو اسرائیلی فوج اس ادارے کے درپے ہو جاتی ہے۔ یوں فلسطینی نوجوانوں کو بھرتی کرنے سے قبل ان سے اس بات کی گارنٹی لی جاتی ہے کہ وہ صہیونی فوج کے مظالم کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں حصہ نہیں لیں گے۔ اس طرح فلسطینی نوجوانوں کو بلیک میلنگ کا بھی سامنا ہے۔
القدس کے 34 سالہ خالد ابو نجمہ نے بتایا کہ میرا تعلق الطور کالونی سے ہے۔ صہیونی حکام کی جانب سے 2009ء میں اسے نوکری سے فارغ کیا گیا اور آج تک اسے گھر پر نظر بند رکھا گیا۔ اس نے بتایا کہ رمضان المبارک کے شروع سے آج تک دوماہ کے عرصے میں اس نے صرف ایک بار گوشت کھایا۔