اسرائیل کے ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیاہے کہ رواں سال مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر الخلیل میں ایک زخمی فلسطینی کو بے رحمی سے گولیاں مار کر شہید کرنے والے فوجی اہلکار کے والدین نے ماضی میں متعدد مرتبہ فلسطینیوں کے قتل اور فلسطینی خواتین کی عصمت دری کا مطالبہ کیا تھا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق عبرانی ذرائع ابلاغ نے رواں سال الخلیل شہر میں ایک نہتے فلسطینی نوجوان عبدالفتاح الشریف کے قاتل فوجی الیور ازریہ کے والدین کے سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر پوسٹ بیانات سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 15 جولائی 2014ء کو سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر پوسٹ ایک بیان میں ازریہ کے والدین نے فلسطینیوں کے قتل اور خواتین کی عصمت دری کا مطالبہ کیا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ازریہ کے ہاتھوں ایک نہتے فلسطینی نوجوان کی شہادت اس کے والدین کی طرف سے فراہم کردہ تعلیمات ہی کا نتیجہ ہے۔ جو والدین فلسطینیوں کو بے گناہ قتل کرنے اور فلسطینی خواتین کی عصمت دری کی اس طرح کھل کر حمایت کریں توان کی اولاد بہر صورت اس نوعیت کے جرائم میں ملوث ہو سکتی ہے۔
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ الیور ازریہ میں انتہا پسندانہ رحجانات اس کے والدین کی طرف سے کوٹ کوٹ کر بھرے گئے ہیں اور عبدالفتاح الشریف کا قتل اسی کا شاخسانہ ہے۔
ازریہ اور اس کی والدہ چارلی کے درمیان سوشل میڈیا پر ایک مکالمہ بھی سامنے آیا ہے۔ اس مکالمے میں چارلی کہتی ہے کہ ’نہایت احترام کے ساتھ میں کہوں گی کہ تم ان کی ماؤں کے ساتھ وہ کچھ کرو جو ان کے ساتھ مناسب ہے[یعنی کہ ان کی عصمت دری] اور ان کے تمام مردوں کو موت کے گھاٹ اتار دو‘۔
الیور کا 30 جون 2014ء کو سامنے آنے والا ایک مکالمہ بھی اسی طرح کی متنازع عبارت سے بھرپور ہے جس میں فلسطینیوں کے قتل کی حمایت کی گئی ہے۔ سوشل میڈٰیا پر پوسٹ بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینیوں کے قتل کے حامی انتہا پسند جماعت کے سابق رکن میر کاہان نے جو کچھ فلسطینیوں کے بارے میں کہا ہے اس پرعمل درآمد کرنا چاہیے۔ یعنی فلسطینیوں کے قتل اور خواتین کی عصمت دری کرنی چاہیے۔