اسرائیلی پارلیمنٹ نے ایک نئے قانون کی منظوری دی ہے، جس میں قرار دیا گیا ہے کہ کسی فلسطینی خاندان کا کوئی فرد اسرائیل کے خلاف مزاحمت میں ملوث پایا گیا تو اس خاندان کی مالی مراعات چھین لی جائیں گی۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق پارلیمنٹ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی سزا کا نیا قانونی مسودہ ’فیوچر‘ پارٹی کے رکن پارلیمنٹ یعقوب بیری نے پیش کیا تھا۔ اگرچہ یہ جماعت اپوزیشن سے تعلق رکھتی ہے مگر حکومتی اتحاد نے بھی اس مسودہ قانون کی حمایت کی۔ گذشتہ روز اس قانونی مسودے پر رائے شماری کی گئی تو 57 ارکان نے اس کی حمایت اور 13 نے مخالفت میں ووٹ ڈالا۔
عبرانی اخبار ’’یسرائیل ھیوم‘‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ قانون ایک ایسے وقت میں منظور کیا گیا ہے جب حال ہی میں داخلی سلامتی کے خفیہ ادارے‘شاباک‘ نے پارلیمنٹ میں ایک رپورٹ پیش کی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سنہ 1948ء کے اندرون میں رہنے والے 73 فی صد نوجوان اسرائیل کے خلاف پرتشدد مظاہروں میں حصہ لیتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ گذشتہ برس اکتوبر کے بعد سے جاری تحریک انتفاضہ کے دوران اندرون اسرائیل کے فلسطینی بھی بڑی تعداد میں صہیونی ریاست کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیتے ہوئے فلسطینی مزاحمت کاروں کی مدد کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔