اسرائیل میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ادارے’بتسلیم‘ کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال کے گذشتہ سات ماہ کے دوران قابض اسرائیلی فوجیوں نے غرب اردن اور بیت المقدس میں فلسطینی شہریوں کے 168 رہائشی مکانات مسمارکیے جس کے نتیجے میں 740 فلسطینی شہری گھر کی چھت سے محروم کیے گئے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی انسانی حقوق گروپ کی جانب سے جاری کردہ سہ ماہی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فوج اور پولیس فلسطینی شہریوں کے بنے بنائے مکان غیرقانونی قرار دے کران کی مسماری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ گذشتہ سات ماہ کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے ایک سو اڑسٹھ مکانات مسمار کیے جس کے نتیجے میں 384 بچوں سمیت 740 فلسطینی بے گھر ہوئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی حکام کی جانب سے فلسطینیوں کے مکانات مسماری کی کارروائیوں میں غیرمعمولی تیزی آئی ہے کیونکہ سال 2015ء کے دوران صہیونی فورسز نے کل 125 مکانات مسمار کئے تھے جس کے باعث 287 بچوں سمیت 496 افراد بے گھر ہوگئے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2006ء کے بعد اب تک صہیونی فوجیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی 30 ہزار 616 املاک مسمار کی گئیں جن میں 1113 رہائشی مکانات شامل ہیں۔ یہ مکانات غرب اردن کے ہیں جن میں القدس کے مکانات شامل نہیں ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صہیونی حکام کی جانب سے مکانات مسماری کے آپریشن کے نتیجے میں 5199 فلسطینیوں کو بے گھر کیا۔ ان میں 2602 بچے شامل ہیں۔
سب سے زیادہ مسماری آپریشن غرب اردن کے سیکٹر E میں کیے گئے۔ جہاں آئے روز فلسطینیوں کے مکانات کو غیرقانونی قرار دے کر ان کی مسماری کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے۔ سنہ 1994ء میں طے پائے معاہدے کے تحت اس سیکٹر میں بنے فلسطینی مکانات کو اسرائیل نے غیرقانونی قرار دے رکھاہے۔
گذشتہ ایک عشرے کے دوران مجموعی طورپر 656 فلسطینیوں کے گھروں کو ایک سے زاید بار مسمار کیا گیا۔ مکانات مسماری کے نتیجے میں متاثر ہونے والوں میں 284 بچے شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر مکانات جنوبی جبل الخلیل اور وادی اردن کے مکانات شامل ہیں۔ نابلس میں مکانات مسماری کے نتیجے میں 27 بچوں سمیت 65 فلسطینی بے گھر ہوئے جب کہ مشرقی بیت المقدس میں مکانات مسماری کے نتیجے میں 29 بچوں سمیت 48 فلسطینی متاثر ہوئے ہیں۔