اسرائیلی کابینہ نے کل بدھ کے روز ہونے والے اجلاس میں غزہ کی پٹی میں جنگی قیدی بنائے گئے صہیونیوں کی رہائی اور ان کے بدلے میں فلسطینی اسیران کی رہائی سے متعلق سفارشات پر غور کا فیصلہ کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں آنے والی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کے لیے سفارشات مرتب کرنے کی ذمہ دار’’شمغار‘‘ کمیٹی نے اپنی سفارشات کابینہ کو بھجوا دی ہیں۔ کابینہ کل بدھ کے روز منعقد ہونے والے اجلاس میں ان سفارشات کا جائزہ لے گی۔
عبرانی اخبار’یسرائیل ھیوم‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ صہیونی خاتون وزیر قانون و انصاف ایلیٹ شاکیڈ نے قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار کی گئی سفارشات کابینہ میں زیربحث لانے کی منظوری دی ہے۔ یہ سفارشات ایک ایسے وقت میں زیرغور لائی جا رہی ہیں جب پارلیمنٹ میں اسیران کے تبادلے کے لیے ایک نیا بل بھی پیش کیا گیا ہے۔ یہ بل’فیوچر‘ پارٹی کے رکن الیعازر اشٹرین کی جانب سے پیش کیا گیا ہے جس میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ حکومت ایک اسرائیلی قیدی کے بدلے میں صرف ایک فلسطینی قیدی رہا کرے۔ نیز زندہ قیدی کے بدلے میں زندہ اور میت کے بدلے میں میت ہی واپس کی جائے۔
خیال رہے کہ اسرائیلی حکومت نے سابق چیف جسٹس مائیر شمغار کی قیادت میں سنہ 2008ء میں قیدیوں کے تبادلے کے لیے ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ اس کمیشن کی تیار کردہ سفارشات کی روشنی میں سنہ 2010ء میں غزہ میں جنگی قیدی بنائے گئے فوجی گیلاد شالیت کے بدلے میں صہیونی حکومت نے 1050 فلسطینی قیدی رہا کیے تھے۔ یہ کمیشن اب بھی قائم ہے اور اس کی قیادت جسٹس شمغار ہی کر رہے ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا انہوں نے اس بار قیدیوں کے تبادلے کے لیے کس قسم کی تجاویز پیش کی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق اس وقت غزہ کی پٹی میں چار صہیونی فوجی زندہ یا مردہ جنگی قیدی کے طورپر مجاھدین کی تحویل میں ہیں۔ اسرائیلی حکومت پر یرغمالی صہیونی فوجیوں کے اہل خانہ کی جانب سے دباؤ میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے۔