چهارشنبه 30/آوریل/2025

’’فلسطینی شہروں کو یہودیانے کی مذموم صہیونی مہم‘‘

اتوار 24-جولائی-2016

اسرائیل کی موجودہ انتہا پسند حکومت کی جانب سے فلسطین کے علاقوں مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں یہودی توسیع پسندی کی مذموم مہم میں مزید تیزی لانے کی کوششیں جاری ہیں۔ صہیونی حکومت کی طرف سے جہاں ایک طرف فلسطینی شہروں میں مقامی فلسطینی آبادی کا ناطقہ بند کرتے ہوئے ان کے جبری انخلاء کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں وہیں غرب اردن اور بیت المقدس کے درمیان قائم کی گئی ’’معالیہ ادومیم‘‘ کالونی کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کی سازشیں بھی تیز کر دی گئی ہیں۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق دفاع اراضی و مزاحمت یہودی آباد کار کے قومی دفتر کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے جنوبی الخلیل شہر میں 42 کلو میٹر کےعلاقے میں نسل پرستانہ دیوار کی تعمیر کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی علاقوں میں کئی نئے یہودی پروجیکٹ شروع کیے ہیں۔ فلسطینیوں کی جبری ہجرت کا ظالمانہ سلسلہ بھی جاری ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ ’’معالیہ ادومیم‘‘ یہودی کالونی کو صہیونی ریاست کا حصہ قرار دینے کی مذموم کوششیں بھی اپنے عروج پرہیں۔ ان تمام سازشوں کے پس پردہ اسرائیل کی موجودہ انتہا پسند حکومت اور اس کے حواری ہیں۔

رپورٹ میں کہا گہا ہے کہ غرب اردن میں یہودی آباد کاری، فلسطینیوں کے جبری بے دخلی، نسلی دیوار کی تعمیر اور یہودی کالونیوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کی تمام سازشیں بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی اور عالمی فوج داری عدالت کے فیصلوں کی کھلی توہین ہے۔

دفاع اراضی مرکز نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت میں شامل انتہا پسند سیاسی جماعتیں فلسطین میں یہودی آباد کاری کا سب سے بڑھ کر پرچارک کر رہی ہیں جس کے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ معالیہ ادومیم کو صہیونی ریاست میں ضم کرتے ہوئے اس پر اسرائیلی قانون لاگو کرنے کی سازشوں میں بھی اسرائیلی حکومتی اتحاد ملوث ہے جو ایک مذموم اور طے شدہ منصوبے کے تحت مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل اور فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’معالیہ ادومیم‘‘ کالونی کو اسرائیل میں ضم کرنے کی کوششیں بھی عالمی قوانین  کے منافی ہیں۔ اگر اسرائیل معالیہ ادومیم کو یہودی ریاست میں ضم کرنے کا اعلان کرتا ہے تو یہ بین الاقوامی معاہدوں اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی سمجھی جائے گی کیونکہ بین الاقوامی سطح پر فلسطین میں اسرائیلی کالونیوں کے قیام، یہودی توسیع پسندی کے منصوبوں، فلسطینی اراضی پر غاصبانہ قبضوں کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ اگر اسرائیل معالیہ ادومیم کو صہیونی ریاست میں ضم کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں مشرقی بیت المقدس کے اہم مقامات بالخصوص ابو دیس، العزیریہ،السواحرہ، الزعیم اور العیسویہ جیسے کلیدی قصبوں کی اراضی ہتھیانے کا اسرائیل کو موقع مل جائے گا۔ ایسی صورت میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور مشرقی بیت المقدس کو اس کے دارالحکومت بنانے کی مساعی کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

یہاں یہ امر واضح رہے کہ ’معالیہ ادومیم‘ نامی یہودی کالونی کے قیام کے لیے اسرائیل نے 35 مربع کلو میٹر پرمحیط اراضی سنہ 1985ء میں یہ کہہ کر غصب کی تھی کہ یہ اراضی اسرائیلی ریاست کا حصہ ہے۔ اب تک مغصوبہ اراضی کے 10 مربع کلومیٹر علاقے تعمیرات بھی کی جا چکی ہیں۔ یہ کالونی معالیہ ادومیم کالونی وادی اردن سے بحر مردار کے درمیان پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں ایک بڑا صنعتی سیکٹر بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ یہاں یہودی آباد کاروں کے لیے جدید ترین سہولیات  فراہم کی گئی ہیں اور آسان شرائط پر یہاں آباد کاری کے ساتھ ساتھ جدید طرز تعمیر کے رہائشی فلیٹس، سیاحتی مراکز اور تجارتی مراکز قائم کیے جا رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ  یہودی آباد کاروں کو اس کالونی میں آبادی کی ترغیب دلائی جاسکے۔

دفاع اراضی مرکز کی جانب سے جاری کردہ بیان رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی ہٹ دھرمی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کی ایک عدالت نے ’’عمونا‘‘ نامی یہودی کالونی کو مسمار کرنے کا حکم دے رکھا ہے مگر صہیونی حکومت اور وزیر دفاع نہ صرف اس کالونی کو مسماری کی راہ میں رکاوٹ ہیں بلکہ وہ اس میں مزید توسیع کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

لائبرمین کی جانب سے پارلیمنٹ میں یہودی کالونیوں کی اراضی کی ملکیت کے حوالے سے قانون سازی کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ لائبرمین ہی کی کوششوں سے ایک قانون منظور کیا گیا جس کے تحت سنہ 1950ء جبری طور پر فلسطین سے نکالے گئے باشندوں کو ’تارکین‘ قرار دے کران کی املاک پرقبضے کی راہ ہموار کی گئی۔

مختصر لنک:

کاپی