جمعه 15/نوامبر/2024

خلیل تفکجی کی یہودی آبادکاری کی توسیع بارے خصوصی گفتگو

جمعہ 22-جولائی-2016

فلسطینی مورخ اور تاریخی مخطوطات کے ماہر خلیل تفکجی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’معالیہ ادومیم‘‘ یہودی کالونی کو اسرائیل میں ضم کرنے کی مذموم سازش کا مقصد بیت المقدس کو فلسطینیوں سے چھیننا ہے۔

خلیل تفکجی نے مرکزاطلاعات فلسطین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل کی جانب سے معالیہ ادومیم یہودی کالونی کو صہیونی ریاست کے لیے ’ میٹرو پولیٹ ۔۔ عظیم تر اسرائیل‘‘ کے منصوبے کا بنایا گیا ہے۔ چونکہ یہ کالونی سیکٹر E1 میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صہیونی حکومت نے یہاں پر بنیادی ڈھانچے، پلوں، سڑکوں کی تعمیر،سرنگوں، میٹرو اور پولیس مراکز کا قیام بہت پہلے شروع کر دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہودی کالونی معالیہ ادومیم، گوش عتصیون اور ’گیفات زئیف‘ یہودی کالونیوں کے نتیجے میں بیت المقدس میں یہودی آباد کاروں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ کیا گیا ہے۔ ان کالونیوں کے قیام کا اصل مقصد مشرقی بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانے کی کوششوں کو ناکام بنانا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کالونیوں میں مقبوضہ مغربی کنارے کا 10 فی صد بھی غصب کیا گیا ہے۔ یہ یہودی کالونیاں دو الگ الگ بلاکس کے قیام کا موجب ہیں اور انہیں غرب اردن اور بیت المقدس کی دوسری کالونیوں کےساتھ جغرافیائی طور پر ضم کیا گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں خلیل تفکجی نے بتایا کہ معالیہ ادومیم پہلی یہودی کالونی نہیں جسے یہودی ریاست میں ضم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ سنہ 1985ءمیں جب صہیونی حکومت نے بیت المقدس اور دوسرے علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا کام شروع کیا تو ان یہودی کالونیوں کی اراضی کو صہیونی ریاست کی ملکیت قرار دیا گیا۔ بیت المقدس کی یہودی کالونیوں کو اس انداز میں باہم مربوط کیا گیا تاکہ شہر کو یہودی ریاست کا دارالحکومت بنانے کے مذموم عزائم کو آگے بڑھایا جا سکے۔

غرب اردن کی پہلی یہودی کالونی
ایک سوال کے جواب میں خلیل تفکجی نے کہا کہ معالیہ ادومیم آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑی کالونی ہے جو نہ صرف بیت المقدس میں پھیلی ہوئی ہے بلکہ غرب اردن میں بھی منقسم ہے۔ بعد ازاں جنیوا معاہدے میں اس کالونی کو فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ اراضی کے تبادلے کی شق میں شامل کیا گیا۔ مگر ان تمام کالونیوں نے غرب اردن کے فلسطینی سماجی دھارے کو منتشر کر کے رکھ دیا۔

انہوں نے بتایا کہ معالیہ ادومیم کالونی کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کا فیصلہ اسرائیل کی آبادیاتی حجم کو مزید بڑھانا ہے۔ اس طرح فلسطینیوں کی نسبت یہودی آبادکاروں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہو جائے گا۔ اگرچہ اس وقت بھی عملی طورپر معالیہ ادومیم یہودی ریاست کا حصہ ہے صرف اس کا رسمی اعلان نہیں کیا گیا۔  معالیہ ادومیم کی تمام سڑکیں، پل اور زیرزیرمین میٹرو لائنز کو بیت المقدس ، جبل المشارف اور بائی پاس روڈ کے ساتھ متصل کر دیا گیا ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگار نے بتایا کہ معالیہ ادومیم کا بیشتررقبہ 1985ء میں ضبط کر لیا گیا  تھا۔ اسرائیلی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ معالیہ ادومیم میں ضم کردہ رقبہ اسرائیلی ریاست کی ملکیت ہے۔ آغاز میں اس کالونی میں 35 مربع کلو میٹر کا رقبہ شامل کیا گیا۔ ان میں سے 10 مربع کلو میٹر علاقے پر تعمیرات مکمل کی جا چکی ہیں۔ اس کالونی کو ایک طرف وادی اوردن اور دوسری طرف بحر مردار کے ساتھ متصل کیا گیا ہے۔ اس میں ایک بڑا صنعتی سیکٹر بھی کی تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کالونی کی صہیونی ریاست کے لیے اہمیت کے اعتبار سے اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل نے اسے اسرائیل کا مشرقی گیٹ قرار دیا ہے۔

پلان کی تفصیلات
خلیل تفکجی نے بتایا کہ فلسطین کے سیکٹر  E1 میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، پولیس ہیڈ کواٹر کے قیام، عبرانی یونیورسٹی اور تلہ الفرنسیہ یہودی کالونی میں شمولیت کے بعد شمالی مشرقی بیت المقدس کا تاریخی داخلی راستہ بند کر دیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ یہودی کالونی معالیہ ادومیم بنیادی ڈھانچے اور پلوں کی تعمیرعالمی سطح پر اسرائیل پر اس کالونی میں مزید توسیع روکنے کے لیے دباؤ سامنے آیا تو صہیونی حکومت نے آئین سازی اور پارلیمنٹ کے پیچھے چھپ کر اپنا مذموم مقصد پورا کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح یہودی کالونی میں توسیع کے ساتھ ساتھ اسے اسرائیل کا حصہ بنانے کے لیے پارلیمنٹ سے قانون سازی کی کوششیں کی گئیں۔ بہ ظاہر بیت المقدس میں قائم اسرائیلی بلدیہ کی توسیع کا نام دیا گیا مگر عملا یہ توسیع معالیہ ادومیم میں جاری ہے۔  اس وقت اس بیت المقدس میں قائم یہودی بلدیہ کی سرحدیں 82 کلو میٹر تک وسیع ہیں۔

چونکہ اس کالونی کے کئی اہم منصوبے مرکزی شاہرائیں بالخصوص شاہراہ 9 اور جبل المشارف سرنگ اور تیزی کے ساتھ جاری منصوبوں کو سنہ 2020ء بیت المقدس کے ساتھ مکمل طور پر ضم کیا جائے گا۔ لوکل ٹرین سروس، بس سروس پہلے ہی  المقدس اور معالیہ ادومیم کے ساتھ مربوط بنائی جا چکی ہیں۔ ان تمام منصوبوں کا مقصد معالیہ ادومیم کی موجودی 40 ہزار یہودی آباد کاروں کی آبادی کو 1 لاکھ تک لانا ہے۔

خیال رہے کہ فلسطینی تجزیہ نگار خلیل تفکجی نے یہ انٹرویو ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب حال ہی میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے عالمی قوانین کے منافی اقدام کرتے ہوئے  معالیہ ادومیم اور وادی گولان کو یہودی ریاست میں ضم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی