جنوب مغربی پولینڈ کے زوٹوریا شہرسے واقف لوگ یقینا اس شہر کی لینڈ مارک سمجھی جانے والے کاچاوا کے قریب بہنے والے اس دریا سے بھی واقف ہوں گے، جس کی مٹی سونے سے زیادہ قیمتی قرار دیتی جاتی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق دریائے کاچاوا تو صدیوں سے بہتا چلا آ رہا ہے مگر اس دریا کے اندر اور کناروں سے سونے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی ایک ہزار سال سے اس دریا کی پہچان ہیں۔موسم ٹھیک ہوتے ہی یہاں پر سونے کے متلاشیوں کا رش غیرمعمولی حد تک بڑھ جاتا ہے۔
سونا تلاش کرنے کا کام محنت طلب اور صبر آزما ہوتا ہے مگر صبر کے ساتھ ساتھ اس کام میں انسانی مہارت کا بھی گہرا عمل دخل ہے۔
پولینڈ کے اس دریا سے سونا تلاش کرنے والے ایک دیرینہ کارکن ’’یارو سلاف‘‘ نے خبر رساں ایجنسی’’اے ایف پی‘‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسے اب تک دریا کے کنارے سے سونے کے 10 ٹکرے ملے ہیں۔
سلاف نے بتایا کہ سونا تلاش کرنے والے لوگ پانی کے اندر بھی اترتے ہیں۔ دریا کی ریت اور اس کی مٹی میں بھی سونا ڈھونٹتے ہیں۔ اوسطاً ہر متلاشی کو یومیہ تین سے چار گرام سونا حاصل ہوجاتا ہے۔
ایک دوسرے شہری ٹاڈوس نے بتایا کہ اس نے دریائے کاچاؤ کے کناروں پر سونے کی تلاش 25 سال پیشتر شروع کی۔
ٹاڈوس کا کہنا ہے کہ وہ سیکڑوں گھنٹے دریا کے پیندے میں سونے کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ دریا سے اسے سونے کی ڈلیاں بھی ملتی ہیں۔ تیس تیس گرام سونے کے ٹکڑے بھی اسے ملتے رہے ہیں۔
ٹاڈوس کا کہنا تھا کہ میں نے سونا اس لیے تلاش کرنا شروع کیا تاکہ میں اسے اپنی بیٹی کو اس کی شادی پر تحفہ دے سکوں مگر اس نے شادی کے موقع پر میرا جمع کردہ سونا نہیں لیا۔ وہ اب بھی میرے پاس ہے۔ اس نے بتایا کہ میرے پاس جمع سونے کی مقدار کچھ اتنی زیادہ بھی نہیں، تاہم مجھے خوشی یہ ہے کہ وہ جتنا بھی ہے میرا اپنا جمع کردہ ہے۔
زوٹوریا شہر میں دریائے کاچاؤ کے کناروں اور اس کے اندر سے سونے کی تلاش کا رجحان 18 ویں صدی عیسوی میں زور پکڑ گیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک لوگ سالانہ 50 کلو گرام سونا جمع کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاطینی میں اس شہر کا نام ’’اوروم‘‘ یعنی ’’سونا‘‘ اور جرمن زبان میں ’’گولڈبرگ‘‘ یعنی سنہری پہاڑ کے نام سے مشہور ہوا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس شہر کا نام ’’زوٹوریا‘‘ یعنی سونے کی کان کے طورپر پڑ گیا تھا۔
مقامی اور غیرملکی سیاح بھی وہاں سونے کی تلاش میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ اب سونے کی تلاش صرف دریا کے کناروں یا اس کی مٹی کے اندر ہی محدود نہیں بلکہ آس پاس کے پہاڑوں میں بھی تلاش کی جا رہی ہے۔