جمعه 15/نوامبر/2024

ترکی ۔ اسرائیل سمجھوتہ، فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی نئی ڈیل ثابت ہو گا؟

منگل 28-جون-2016

ان دنوں اسرائیل اور ترکی کے ذرائع ابلاغ میں تل ابیب اور انقرہ کے درمیان پانچ سال سے تعطل کا شکار سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے دونوں ملکوں کےدرمیان ایک معاہدے کی خبریں کافی گرم ہیں۔ اسرائیل کے سفارتی اور سیاسی حلقے ترکی اور اسرائیل کے درمیان سفارتی ڈیل کو فلسطینی مزاحمتی تحریک اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے لیے ایک انعام قرار دے رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ترکی اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی سے حماس اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی کسی نئی ڈیل میں کامیاب ہو گی اور مرضی کے مطابق اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے غزہ میں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلی فوجیوں کو رہا کر کے فلسطینیوں کو آزاد کرائے گی۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق یہ تازہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب غزہ میں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلی فوجیوں کے عزیزواقارب ایک احتجاجی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ اس احتجاجی مہم کے دوران مظاہرین نے دھمکی دی ہے کہ اگرحکومت نے ترکی کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی ڈیل کو ان کے غزہ میں قید فوجیوں کی رہائی کا معاہدہ نہ کیا تو وہ احتجاج کا سلسلہ مزید سخت کردیں گے۔

ادھر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ غزہ میں قید فوجیوں کی رہائی کے لیے ہرسطح پرکوششیں کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم قیدیوں کی رہائی کے لیے رابطے میں ہیں اور ہماری بات چیت کافی آگے بڑھی ہے۔ ہم اپنے فوجیوں کو فلسطینی مزاحمت کاروں کے قبضے سے چھڑانے کے لیے اعلانیہ اور خفیہ ہرسطح پر کوششیں جاری رکھیں گے۔

حال ہی میں اسرائیل کے عبرانی ٹی وی 2 کی ویب سائیٹ پر ایک رپورٹ شائع کی گئی ہے جسے ’حماس کے ہاں قیدیوں کے اہل خانہ کی جدو جہد‘ ترکی کے ساتھ معاہدہ حماس کے لیے ایک انعام‘ کا نام دیا گیا ہے‘۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں یرغمال بنائے گئے فوجیوں ارون شاؤول، ابراہام منگسٹو اور ھدار گولڈن کے اہل خانہ اور اقارب نے ایک نئی مہم شروع کی ہے۔ اس مہم میں انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ترکی کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کا جو بھی معاہدہ کرے مگر اس میں غزہ میں قید ان کے رشتہ دار فوجیوں کی رہائی کی شرط لازمی رکھے کیونکہ ترکی حماس پر اثر انداز ہو کریرغمالیوں کو رہا کرانے میں اہم کرادار ادا کر سکتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اٹلی کے دارالحکومت روم میں ترکی اور اسرائیل کے مذاکراتی وفود کی باہم ملاقاتوں میں غزہ میں حماس کی قید میں موجود اسرائیلی فوجیوں کی رہائی پر کوئی بات  نہیں کی گئی ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک امر ہے اور وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی پالیسیوں اوار اعلانات کی صریح ناکامی ہے۔

ترکی، اسرائیل معاہدے کے اہم نکات

چھ سال سے تعطل کا شکار رہنے والے سفارتی تعلقات کے بعد آخر کار اسرائیلی کابینہ نے ترکی کی شرائط منظور کرتے ہوئے انقرہ کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی منظوری دی۔ بنیادی طور پر اس معاہدے کے بعد دونوں ملک انٹیلی جنس کے میدان میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔ دنوں ملکوں میں سفراء کا تقرر عمل میں لایا جائے گا۔ شہریوں کی آزادانہ آمد و رفت ممکن ہو گی اور دونوں ملک اس کے بعد عالمی اداروں میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی سے گریز کریں گے۔ خاص طور پر نیٹو اور اقوام متحدہ کی تنظیموں میں دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔

اس معاہدے کے تحت اسرائیل مرمرہ بحری جہاز کے متاثرین کو 21 ملین ڈالر تاوان ادا کرے گا۔ اس کے بدلے میں ترکی جہاز پر حملے میں ملوث فوجی افسروں کے خلاف عالمی اداروں میں مقدمات کے مطالبے سے دستبردار ہو جائے گا۔ ماضی میں ترکی غزہ کی پٹی کا معاشی محاصرہ ختم کرنے کی شرط بھی عاید کرتا رہا ہے مگر اب کلی طور پر اس شرط سے دستبردار ہو گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ترکی اگرغزہ کی پٹی میں سامان لے جانا چاہتا تو اسے اسرائیل کی اسدود بندرگاہ کے راستے  لے جانا پڑے گا اور اس کے لیے تل ابیب کی پیشگی منظوری بھی لازمی ہو گی۔ اسرائیل کو ترکی سے غزہ لے جانے والے سامان کی پوری طرح تلاشی لینے اور مانیٹرنگ کرنے کا  حق دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے ترکی کو غزہ کی پٹی میں بجلی گھروں اور اسپتالوں کے قیام کی عالمی نگرانی میں اجازت دے گا۔

معاہدے کا ایک دوسرا پہلو ہے۔ وہ یہ کہ جس طرح اسرائیل بعض معاملات میں اپنی مرضی استعمال کرے گا اسی طرح ترکی کو بھی بعض اقدامات کا حق ہو گا۔ مثلاً غزہ کی پٹی کو سامان کی ترسیل کے لیے اسرائیل کی طرف سے پیشگی اجازت لازمی ہو گی، اسی طرح اسرائیل بھی اس شرط سے دستبردار ہو گیا ہے کہ ترکی اپنے ہاں حماس رہ نماؤں کی میزبانی نہیں کرے گا۔ ترکی حماس رہ نماؤں کی میزبانی جاری رکھے گا، جس پر اسرائیل کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

یرغمالی فوجیوں کا معاملہ

ترکی اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے ساتھ ہی صہیونی ریاست میں غزہ کی پٹی میں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلیوں کی رہائی کے مطالبات بھی شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

القسام بریگیڈ کے ہاں یرغمال ارون شاؤول کی والدہ نے تل ابیب میں ایک احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’وزیراعظم نیتن یاھو آپ کو معلوم ہے کہ حماس کی قیادت ترکی میں ہے۔ اس لیے جاؤ اور ایردوان کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے معاہدے پر دستخط سے قبل ہمارے عزیزوں کورہا کرانے کی تیاری کرو‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر نیتن یاھو نے ہمیں مایوس کیا تو ہماری مہم بیت المقدس سے شروع ہوگی اور اپنے قیدیوں کی رہائی تک جاری رہے گی۔

عبرانی ٹی وی 2 کے مطابق ابراہام منگسٹو نامی یرغمالی فوجی اہلکار کے والدین اور دیگر اقارب نے بیت المقدس میں اسرائیلی وزیراعظم ہاؤس کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر ’نیتن یاھو نے ہمیں دھوکہ دیا‘ کے نعرے درج تھے۔ انہوں نے غزہ میں فلسطینی مجاھدین کے ہاں جنگی قیدی بنائے گئے فوجیوں کی رہائی کے لیے ہرسطح پرتحریک جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

مختصر لنک:

کاپی