اسرائیلی اور ترک حکومتوں کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ دونوں ملک پانچ سال سے تعطل کا شکار سفارتی تعلقات بحال کرنے کے ایک معاہدے سے متفق ہوگئے ہیں۔ جس کے بعد جلد ہی دونوں ملکوں میں سفراء کا تقرر عمل میں لایا جائے گا۔
امریکی ٹی وی ’ سی این این‘ اورخبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘کی رپورٹس کے مطابق اسرائیلی حکومت کے اٹلی میں موجود ایک عہدیدار نے بتایا کہ انقرہ اور تل ابیب میں سفارتی تعلقات کی بحالی کا سمجھوتہ طے پا چکا ہے۔ صرف رسمی اعلان کرنا باقی ہے۔
ادھر اناطولیہ خبر رساں ایجنسی نے وزیراعظم بن علی یلدم کے دفتر کے ایک ذریعے کا حوالہ دیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل اور ترکی دوطرفہ سفارتی تعلقات کی بحالی کےمعاہدے سے متفق ہوگئے ہیں۔ جلد ہی وزیراعظم اس معاہدے کا اعلان کریں گے۔
ذرائع کے مطابق گذشتہ دنوں اٹلی کے دارالحکومت روم میں ہونے والے دونوں ملکوں کے مذاکرات میں ترک مذاکراتی ٹیم کی قیادت اسرائیل کے ترکی کے سابق سفیر فریدون سینیرلی اوگلو جب کہ اسرائیلی وفد کی قیادت جوزف چیکا نوفر نے کی۔ ذرائع کے مطابق اسرائیلی حکومت نے ترکی کی طرف سے تعلقات کی بحالی کے لیے پیش کردہ تینوں شرائط تسلیم کرلی ہیں۔
خیال رہے کہ ترکی اور اسرائیل کے درمیان سنہ 2010ء میں اس وقت تعلقات کشیدگی کا شکار ہو گئے تھے جب اسرائیل نے ترکی کی طرف سے محصور فلسطینی علاقے غزہ کی پٹی کے عوام کے لیے امدادی سامان سے لدے متعدد بحری جہاز روانہ کیے تھے۔ اسرائیلی فوج نے ترکی کے امدادی جہاز ’مرمرہ‘ پر حملہ کرکے 10 ترک رضا کاروں کو شہید اور پچاس سے زاید کو زخمی کردیا تھا۔ قابض اسرائیلی فورسز نے دوسرے امدادی جہازوں پر سوار ساڑھے چھ سو عالمی امدادی کارکنوں کو یرغمال بناتے ہوئے امدادی سامان لوٹ لیا تھا۔ اس واقعے پر بہ طور احتجاج ترکی نے صہیونی ریاست کے ساتھ پہلے سے سرد مہری کا شکار سفارتی تعلقات توڑ لیے تھے۔ پچھلے تین سال سے دونوں ملکوں نے سفارتی تعلقات کی بحالی کے دوبارہ رابطے شروع کر دیے تھے۔