ویسے تو پورا فلسطین ہی جانثاری، اولوالعزمی، بہادری اور قربانی کی لازوال روایات سے بھرپور ہے، فلسطینی قوم بجا طور پر اس پر فخر کا اظہاربھی کرتے ہیں مگر فلسطین کے بعض علاقے اپنے باشندوں کی ان تھک جدوجہد اور عزم استقلال کی صفات جلیلہ کی بدولت اپنی ایک خاص پہچان رکھتے ہیں۔
فلسطین کے تاریخ اور جغرافیے میں ہمیشہ تابندہ رہنے والے ایسے ہی شہروں اور قصبوں میں ایک نام ’’الشجاعیہ‘ کا بھی ہے۔ الشجاعیہ غزہ کی پٹی کے مشرق میں واقع ایک سرسبز و شاداب قصہ ہے۔ ماضی کی صلیبی جنگوں اور دور حاضر کی صہیونی جنگجوں میں یہ قصبہ قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کرتے ہوئے تاریخ میں امر ہو چکا ہے۔ یہاں پر آخری معرکہ جولائی اور اگست 2014ء کو لڑا گیا جب صہیونی دشمن نے اپنے تباہ کن اسلحے کا منہ اس قصبے پر کھول دیا اور قصبے کی اینٹ سےاینٹ بجا دی۔
الشجاعیہ اپنے بہادروں ، جانثاروں اور حریت پسندوں کی بدولت مشہور ہے مگر یہاں پر کئی بڑی تنظیموں کی بنیاد رکھی گئی جس نے اس قصبے کی اہمیت کواور بھی چار چاند لگا دیے ہیں۔
جماعتوں کی تاسیس کی خشت اول
مشرقی غزہ کی پٹی میں واقع الشجاعیہ کالونی کی تاریخ اس اعتبارسے بھی جلی حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے کیونکہ یہاں مشہور مسلمان سپہ سالار صلاح الدین ایوبی کے دور سے آج تک کئی نامی گرامی گروپ وجود میں آئے۔ دور ایوبی میں ’شجاع الکردی‘ نامی شہری کی نسبت سے اس قصبے کا نام الشجاعیہ مشہور ہوا۔ الکردی صلاح الدین ایوبی کے اہم ترین فوجی کمانڈروں میں شمار ہوتے تھے اور 1239ء کو صلیبیوں کے ساتھ لڑائی میں یہاں پر جام شہادت نوش کر گئے۔ اس کے بعد یہ قصبہ انہی کے نام کی نسبت سے آج تک پہچانا جاتا ہے۔
الشجاعیہ دو حصوں پر مشمل ہے۔ جنوبی سمت کی کالونی کو الترکمان کالونی کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ شہرت یہاں پر ترکمانی قبائل کا رہائش پذیر ہونا بتایا جاتا ہے۔ ترکمان بھی صلاح الدین ایوبی ہی کےدور میں اس قصبے میں آئے۔ شمالی کالونی کو موصل سے آنے والے کردوں کی نسبت سے الاکراد کالونی کہا جاتا ہے۔
غزہ کے تاریخی بازاروں میں ایک پرانی کلاتھ مارکیٹ بھی الشجاعیہ میں قائم ہے۔ یہاں ہفتہ وار مویشی منڈی لگانے کا کلچر بھی عشروں پرانا ہے اور جمعہ ک روز یہاں مویشیوں کو لایا جاتا ہے۔
تنظیم آزادی فلسطین، اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘، اسلامی جہاد، عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین اور کئی دوسری اسلامی اور سیاسی تحریکوں کی بنیاد اسی کالونی میں رکھی گئی۔
المنطار ٹیلہ
الشجاعیہ کی یادگار بلکہ ’لینڈ مارک‘ قرار دی جانے والی جگہؤں میں سطح سمندر سے 85 میٹر بلند المنطار ٹیلہ بڑا مشہور ہے۔ یہ صرف سیاحتی اعتبار سے ہی اہمیت کا حامل نہیں بلکہ ایک اہم تزویراتی اور دفاعی مقام ہے۔ نابلن بوپارٹ کے لشکر نے غزہ میں اسی ٹیلے سے اندر داخل ہو کر کارروائی کی تھی مگر عثمانی فوج کے جوابی حملے میں ان کے ہزاروں فوجی مارے گئے تھے جنہیں غزہ میں پہلی جنگ عظیم کے نام سے مشہور قبرستان میں دفن کیا گیا۔
صلاح الدین ایوبی کے دور سے قبل ٹیلہ المنطار کے اطراف میں ایک دیوار بھی تعمیر کی گئی تھی جسے صلیبیوں نےمسمار کر دیا تھا۔
صلیبیوں کے خلاف جنگ کے دوران صلاح الدین ایوبی نے ٹیلہ المنطار پر کرد، ترکمان اور خوارزمی فوجیوں کی کمک جمع کی تھی۔یہاں سے اس کالونی کا نام الشجاعیہ پڑ گیا تھا۔ غزہ میونسپل کونسل کے مطابق الشجاعیہ میں سنہ 2013ء میں کی گئی ایک رائے شماری میں یہاں کے باشندوں کی تعداد ایک لاکھ بتائی گئی تھی۔
اہم تاریخی آثار
الشجاعیہ کالونی میں کئی تاریخی آثار اور معالم کا قیمتی ذخیرہ موجود ہے۔ یہاں پر واقع جامع احمد بن عثمان جسے جامع الکبیر بھی کہا جاتا ہے پرانے قصبے کے داخلی دروازے پر ہے اور یہ اس قصبے کی سب سے بڑی اور قدیم مسجد ہے۔ اس مسجد سے متصل ایک قبرستان قائم ہے، جس کے بارے میں مورخین لکھتے ہیں کہ وہ ممالیک دور کے فرمانروا یلخجا کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔
جامع الکبیر کے علاوہ اس کالونی میں کئی اور مساجد بھی اس کا طرہ امتیاز ہیں۔ ان میں مسجد ’’الھواشی‘‘، مسجد السیدہ رقیہ اور مسجد علی بن مروان قابل ذکر مساجد ہیں۔
پہلی عالم جنگ کے دوران یہاں پر ایک بڑا قبرستان بنایا گیا جو اس وقت الشجاعیہ کے مرکز سے شمال کی جانب ایک ہزار میٹر کے فاصلے پر ہے جسے ’’تیونسی قبرستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
کالونی کا عسکری اور دفاعی کردار
الشجاعیہ کالونی دفاعی اور عسکری اعتبار سے غزہ کا اہم ترین مقام ہے۔ سنہ 1967ء کی چھ روزہ عرب ۔ اسرائیل جنگ ، سنہ 1987ء کو فلسطین میں شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ اول اور بعد کی کئی جنگوں میں اس قصبے کے باشندوں نے قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کیں اور غاصب صہیونی دشمن کے خلاف دلیری اور بہادری سے لڑتے رہے۔
کشت وخون کے واقعات
الشجاعیہ کالونی کے باشندوں نے جہاں ہمیشہ غاصب دشمن کے خلاف جانثاری اور بہادری سے مقابلہ کیا وہیں دشمن کے ہاتھوں یہاں پر کئی بار قتل وغارت گری کے دل دہلا دینے والے واقعات بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ اسرائیلی فوج نے 18 فروری 2003ء کو اس کالونی پر ٹینکوں اور بمبار طیاروں سے بمباری کی، جس کے نتیجے میں 13 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔ اس کے ایک سال بعد 11 فروری 2004ء کو اسرائیلی فوج نے یہاں پر دوبارہ حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 15 فلسطینی شہید اور 44 زخمی کیے۔ شہید اور زخمی ہونے والوں میں 20 بچے بھی شامل تھے۔
سنہ 2008،09ء کی جنگ میں بھی الشجاعیہ کالونی اسرائیلی فوج کا تختہ مشق رہی اور درجنوں فلسطینی شہید اور زخمی کیے گئے۔
سنہ2014ء کو غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی جنگ میں دو ماہ سے کم عرصے کے دوران اسرائیلی فوج نے یہاں کے 75 باشندوں کو شہید کیا۔ شہداء کی اکثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل تھی۔ تباہ کن بمباری سے مکانات ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے اور شہری مکانوں کے ملبے تلے دب کر شہید ہوئے۔
افرادی قوت
الشجاعیہ کالونی صرف فلسطین ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں شرح پیدائش کے اعتبار سے صف اول کی کالونیوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہاں پر اوسطاً ایک کنبہ 8 سے 16 افراد پر مشتمل ہے اور ہرسال کم سے کم 10 ہزار نئے بچے پیدا ہوتے ہیں۔
یہاں کی اہم ترین شخصیات میں حماس کےعسکری ونگ القسام بریگیڈ کے کمانڈر احمد الجعبری بھی شامل ہیں جنہیں اسرائیلی فوج کے جنگی طیاروں نے 14 نومبر 2014ء کو ایک قاتلانہ حملے میں شہید کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ اپنے تین جواں سال بیٹوں کوتحریک آزادی فلسطین کے دوران وطن عزیز پر قربان کرنے والی مریم فرحات’خنساء فلسطین‘ کا تعلق بھی اسی کالونی سے ہے اور معروف فلسطینی انقلابی شاعر معین بسیسو بھی یہیں پیدا ہوئے تھے۔