فلسطین میں سرکاری سطح پر جاری کردہ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی نسل پرستانہ پالیسیوں کے نتیجے میں مقبوضہ بیت المقدس کے 82 فی صد فلسطینی باشندے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر فلسطینیوں کی معاشی اور مالی حالت بہتر نہ کی گئی تو وہ قحط جیسی وبا کا سامنا کر سکتے ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق ’’القدس انسٹیٹیوٹ برائے مطالعہ اسرائیل‘‘ کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مشرقی بیت المقدس میں 3 لاکھ فلسطینی آباد ہیں اور یہ اس شہر کے سب سے غریب ترین شہری کہلاتے ہیں۔
رپورٹ میں فلسطینیوں کی غربت کی بنیادی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی نسل پرستانہ پالیسیاں، اسرائیل کی نسلی دیوار، فلسطینیوں پر آزادانہ تجارتی اور کاروباری پابندیاں، ملازمتوں سے فلسطینیوں کو محروم رکھنا اور غرب اردن اور القدس کے درمیان آزادانہ آمد و رفت کی راہ میں رکاوٹیں غربت کے بنیادی اسباب ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی آبادی کے قریب رہنے والے یہودیوں کا معیار زندگی کئی گنا بہتر ہے۔ یہودیوں کو کاروبار کی سہولت کے ساتھ ساتھ انہیں ملازمتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ اسرائیلی حکومتیں اور یہودی تنظیمیں یہودی آباد کاروں کی مالی مدد کرتی ہیں۔ یہودی کالونیوں میں بنیادی ڈھانچہ بہتر ہے مگر فلسطینیوں کو بنیادی شہری سہولیات میسر نہیں ہیں۔
حال ہی میں اسرائیل کے عبرانی اخبار’’ہارٹز‘‘ نے بھی بیت المقدس میں فلسطینیوں کی غربت کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ میں بھی کہا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج اور پولیس کی ناکہ بندی نے فلسطینیوں کی غربت میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مشرقی بیت المقدس میں صرف 7 فی صد فلسطینی آبادی کے ذرائع آمدن محفوظ ہیں جب کہ یہودیوں کے 10 فصی ذرائع محفوظ ہیں۔