اسرائیل کی جیل میں 90 دن سے زاید عرصے تک مسلسل بھوکے پیاسے رہنے والے فلسطینی بطل جلیل اور جرات مند صحافی محمد اسامہ القیق نے اپنی رہائی کے بعد مرکزاطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اپنے ایام اسیری کے بارے میں چشم کشا انکشافات کیے ہیں۔ القیق کا کہنا ہے کہ میری بھوک ہڑتال نےیہ ثابت کردیا ہے کہ صہیونی ریاست کے تمام تر مکروہ ہتھکنڈے اور طاقت کے استعمال کے حربے فلسطینیوں کے عزم کے سامنے بے بس ہیں۔
اپنے انٹرویو میں انہوں نے العفولہ جیل کی اسپتال کے کمرہ نمبر 362 میں اپنی بھوک ہڑتال، اسرائیلی جیلروں کے رویے، فلسطینیوں کی جانب سے اظہار یکجہتی کی تحریک، فلسطینی اسیران کی طرف سے تعاون اور رہائی کے بعد کے عزائم پر کھل کر بات کی۔
القیق کا کہنا ہے کہ العفولہ اسپتال کے روم نمبر 362 سے اس کی آہوں، آنسوؤں اور دکھوں کی یادیں وابستہ ہیں کیونکہ اس نے زندگی کے نہایت تلخ ایام اور بھوک پیاس کے شب وروز اسی کمرے میں گذارے۔ انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی جیلر مجھے دھمکیاں دیتے کہ اب تمہارے بیوی بچے تمہیں زندہ حالت میں نہیں دیکھیں گے۔ میری بھوک ہڑتال سے تنگ آکر مجھے کئی سال تک قید تنہائی میں ڈالنے کی دھمکی دی جاتی۔
محمد اسامہ القیق نے رہائی کے بعد مرکزاطلاعات فلسطین کو تفصیلی انٹرویو دیا۔ ان کی سبق آموز، فکر انگیز اور حوصلہ افزا باتیں اردو قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں۔
*۔۔۔ آپ کو کیوں گرفتار کیا گیا اور براہ راست کس نوعیت کی تفتیش کی گئی؟
القیق :۔ صہیونی فوج نے میرے گھر پرچھاپہ مار کارروائیاں شروع کیں۔ میرے اہل خانہ اور بیوی بچوں کو ہراساں کیا جانے لگا۔ گھر میں توڑپھوڑ اور لوٹ مار کے بعد مجھے حراست میں لے لیا گیا۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل نے یہ سارا کھیل ہمیں تشدد کے ذریعے خوف زدہ کرنے کے لیے کھیلا تھا۔
دوران حراست مجھ سے ایسے سوالات پوچھے گئے جن کا میری ذات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ مثلا انہوں نے براہ راست تفتیش کے دوران مجھ سے اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے ایک خفیہ سیل کےقیام اور اس میں میرے کردار کے بارے میں سوالات پوچھے۔ میں مطمئن تھا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ جو باتیں مجھ سے پوچھی جا رہی ہیں ان کا میری ذات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ صہیونی دشمن بڑے بڑے سوالات کرکے چھوٹی چھوٹی باتیں معلوم کرنے کے راستے پر چل رہے تھے۔ وہ مجھ سے فلسطین باہر ترکی، غزہ کی پٹی اور قطر میں اپنے روابط کے بارے میں بار بار سوالات کرتے۔ تفتیش کار دراصل یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے اسرائیل کے خلاف تشدد پر اکسانے کی مہم چلا رہا ہوں۔ مگر وہ اپنے اس حربے کو ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
*۔۔۔ دوران حراست آپ کے ساتھ کس طرح کے تفتیشی حربے استعمال کیے گئے؟
القیق:۔ صہیونی نسل پرست تفتیش کاروں نے مجھ سے تفتیش کے دوران وہ تمام مکروہ اور قبیح حربے استعمال کیے جو وہ عام طور پر فلسطینی قیدیوں سے تفتیش کی آڑ میں استعمال کرتے ہیں۔ مجھے بری طرح مارا پیٹا گیا۔ گالیاں دی جاتیں، ذہنی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا دھمکیاں دی جاتیں اور قید تنہائی میں ڈالنے کی بار بار دھمکی دی گئی۔ نیند سے محروم رکھا جاتا۔ پیاس لگتی تو پانی سے محروم رکھا جاتا۔
تفتیش کے دوران مجھے میرے وکیل سے ملاقات سے محروم رکھا گیا۔ قید کے ابتدائی ایام میں میرے ہاتھ کمر پرباندھ دیے جاتے۔ پاؤں میں بیڑیاں ڈالی جاتیں قیدخانے سے باہر نکالتے وقت میری آنکھوں پر پٹیاں باندھ کرمجھے کسی دوسرے مقام پر منتقل کیا جاتا۔
*۔۔ آپ نے بھوک ہڑتال وہاں کی جہاں آپ کو تفتیش کے لیے رکھا گیا تھا۔وہاں کیا محسوس کیا؟
القیق :۔۔ چونکہ اسرائیلی فوج کے پاس میرے حراست کا کوئی آئینی، اخلاقی جواز نہیں تھا۔ میں ایک صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار تھا۔ دوران تفتیش مجھے محسوس ہوا کہ شاباک کے تفتیش کار حقیق سے خایف ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ میری آواز عوام تک پہنچے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مجھ پر نفسیاتی اور جسمانی تشدد کا دباؤ ڈالنے کی کوشش کررہے تھےتاکہ میں اپنے حق میں میڈٰیا اور انسانی حقوق کے اداروں کے ساتھ ساتھ عوام کو ہم آواز نہ کرسکوں۔ میں نے دشمن کی اس کمزوری کو بھانپ لیا اور تفتیشی مراحل کے اندر ہی بھوک ہڑتال شروع کردی تھی۔
شروع میں وہ میری بھوک ہڑتال کو مذاق سمجھ رہے تھے۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ میں اتنی طویل بھوک ہڑتال جاری رکھ پاؤں گا۔ تفتیش کار مجھ پر طنز کرتے اور کہتے کہ ہم نے تجھ ایسے بے شمار سورما دیکھے ہیں جنہوں نے بھوک ہڑتال کا اعلان کیا مگر چند ہی دن میں ان کے غبارے سے ہوا نکل گئی تھی۔ جناب صحافی آپ عوام کے سامنے نہیں جاسکتے اور نہ ہی آپ لوگوں کو اپنی حمایت میں گھروں سے نکال سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ باتیں کہہ کر مجھے اور بھی پرعزم کردیا۔ تفتیش کاروں کا ظلم جتنا بڑھتا رہا میرا عزم اور حوصلہ اتنا ہی جواں ہوتا گیا۔
*۔۔۔ دوران حراست بھوک ہڑتال کرنے کے بعد آپ نے ہرطرح کا کھانا پینا ترک کردیا۔ کیا آپ کو اپنی زندگی کے چلے جانے کا ڈر نہیں تھا؟
القیق: ۔۔ جب میں نے بھوک ہڑتال کا فیصلہ کیا تو میں جانتا تھا کہ اس کا انجام شہادت بھی ہوسکتا ہے۔ مجھے بار بار اپنی بیوی، بچوں والدین کی یاد آتی۔ جب اس طرح کا خیال دل میں آتا تو میں کہتا کہ یہ سب شیطانی وساوس ہیں۔ مجھے ہرطرح کی فکر سے بے پرواہ ہو کر اپنی بھوک ہڑتال جاری رکھنا ہے۔ میں سب کو بھلانے کی کوشش کرتا تاکہ میرے سامنے کسی کے لیے ہمدردی اور دکھ کا پہلو نہ رہے تاکہ فتح یا شہادت میں سے کوئی ایک مجھے حاصل ہو کر رہے۔ شروع شروع میں مجھے اپنے ساتھ بہت لڑنا پڑا اور میں ہر بار یہ فیصلہ کرتا کہ مجھے ہڑتال جاری رکھنی ہے اسے چھوڑنا نہیں ہے۔ مجھ سے پہلے بھی اس راستے پر چلنے والے بے شمار فلسطینی طویل بھوک ہڑتال کے نتیجے میں رہائی کی منزل پا چکے ہیں۔ یہ خیال مجھے اپنی فتح پر اور بھی مطمئن کرتا۔
*۔۔۔ کیا آپ کو اندازہ تھا کہ جیل سے باہر آپ کے ساتھ کس طرح کا یکجہتی کا مظاہرہ ہو رہا ہے اور آپ کی بھوک ہڑتال کا معاملہ کتنی پذیرائی حاصل کرچکا ہے؟
القیق:۔۔ نہیں مجھے جیل کے اندر باہر کی دنیا کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں تھا۔ مجھے اپنے وکلاء سے چند چھوٹی موٹی خبریں مل جاتیں مگر وکلاء بھی اسرائیلی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں کھل کر بات کرنےمیں جھجھک محسوس کرتے تھے۔
*۔۔۔ آپ کو کیسے اور کب علم ہوا کہ آپ کی بھوک ہڑتال ایک بین الاقوامی ایشو بن چکی ہے؟
القیق:۔بھوک ہڑتال کے 79 دن بعد الشیخ راید صلاح نے العفولہ جیل کے اسپتال میں مجھ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے دوران انہوں نے مجھے بتایا کہ میری بھوک ہڑتال اس وقت علاقائی، قومی اور عالمی ایشو بن چکی ہے۔ مساجد میں فلسطینی علماء آپ کی رہائی اور یکجہتی کے لیے قرارداد یں منظور کرتے ہیں۔ شہروں میں مظاہرے اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ اسکولوں میں بچے میری تصویں لگاتے ہیں۔ مجھے یہ سب کچھ سن کر ایک نیا حوصلہ ملا اور خوشی سے میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ میں نے جان لیا کہ میری مساعی کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوگیا ہے۔ اب بھوک ہڑتال ترک کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مجھے شہادت یا رہائی تک بھوک ہڑتال جاری رکھنا ہے۔
*۔۔ بھوک ہڑتال کے تسلسل میں آپ جیل انتظامیہ اور صہیونی پراسیکیوٹر کا رویہ کیا محسوس کرتے؟
القیق:۔۔ ایک روز میں نے اپنے قریب دو اسرائیلی فوجیوں کو آپس میں عبرانی میں باتیں کرتے سنا۔ ان کا خیال تھا کہ شاید میں سو رہاہوں۔ میں ان کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ میرے بارے میں کہہ رہے تھے اس قیدی نے ذرائع ابلاغ میں بھونچال پیدا کردیا ہے۔ اس لیے اب اسے زیادہ دیر تک زیرحراست نہیں رکھا جاسکتا۔ اسرائیلی ریاست اس کے حوالے سے عالمی ذرائع ابلاغ کے دباؤ کا بوجھ زیادہ عرصے تک برداشت نہیں کرسکتی۔
اسی طرح اسرائیلی جیل انتظامیہ اور پراسیکیوٹر نے مجھ سے اقارب سے ملاقات پرعاید پابندی ختم کردی تھی اور میں ہرایک سے مل سکتا تھا۔ جیل انتظامیہ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی تھی میری جان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے تاہم وہ یہ کہتے تھے کہ ذرائع ابلاغ میں القیق کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہاہے جس کی وجہ سے اسرائیل پر سخت دباؤ آ رہا ہے۔
*۔۔ 90 دن کی مسلسل بھوک ہڑتال کے بعد آپ اپنے والد، اہلیہ اور بچوں کے ساتھ بات چیت میں کیسا محسوس کررہے تھے؟
القیق: ۔۔ مجھے اپنے والد سے بات کرتے ہوئے کوئی جھجھک نہیں تھی کیونکہ والد محترم کے ساتھ ایک دوست کی طرح بے تکلفی تھی۔ چونکہ وہ دل کے مریض تھے اور ان کے دل کا ایک بار آپریشن بھی ہوچکا تھا۔ اس لیے میں ان کے سامنے بات کرتے ہوئے اپنے حوصلے بلند رکھے اور یہ تاثر دینے کی پوری کوشش کی میں بالکل ٹھیک اور مکمل عافیت سے ہوں۔
بچوں، والد اور اہلیہ کو اپنے پاس جیل میں دیکھ کر اپنی فتح ونصرت کا بھی احساس ہوا۔ مجھے یہ بھی خوشی تھی کہ انہوں نے مجھے آج ایک بار پھر زندہ حالت میں دیکھا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ رب العزت کی مہربانی اور عطاءسے ممکن ہوا۔ العفولہ جیل کی اسپتال میں کمرہ نمبر 362 یاد گار کمرہ ہے جہاں کئی بڑی بڑی تبدیلیاں آئیں۔ میرے دکھ اور آنسوؤں کی یادیں بھی اس کمرے سے وابستہ ہیں اور میری راحت، اطمینان اور رہائی کی خوش خبری کی اچھی یادیں بھی اسی کمرے سے وابستہ ہیں۔ اسی کمرے میں میری ملاقات الشیخ راید صلاح سے ہوئی۔ اس کے بعد اسرائیلی کنیسٹ کے عرب ارکان محمد برکہ اور حنین الزعبی نے ملاقاتیں کیں۔ میرے سیکڑوں حامیوں نے وہاں مجھ سے ملاقات کرکے میری ڈھارس بندھائی۔ یہ کمرہ اس اعتبار سے بھی ایک یاد گار ہے کیونکہ اس میں مجھے اسرائیلی شاباک کے اہلکار دھمکی دیتے کہ تمہارے بیوی بچے اب تمہیں زندہ نہیں دیکھیں گے۔ وہ اب تین سال تک آپ کو نہیں دیکھ پائیں گے۔ ہم تمیں جیل کی ایک ایسی جگہ پھینکیں گے جہاں تم روشنی تک دیکھنے کو ترسو گے۔ مگردشمن کی تمام تر دھکیوں کے باوجود نوے دن بعد میری اپنے اہل خانہ، بچوں اور والد سے ملاقات ہوئی اور دشمن کی دھمکیاں خاک میں مل گئیں۔
*۔۔ رہائی کے بعد محمد القیق اپنے صحافی بھائیوں کو کیا پیغام دے گا؟
القیق:۔۔ میں اپنے صحافی ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ وہ ریاست کا چھوتا نہیں بلکہ پہلا ستون ہیں۔ کیونکہ وہ حقیقی انقلاب برپاکرتے ہیں۔ میں ان سے کہوں گا کہ تمہارے قلم اور کیمرے ہی حقیقی آنکھیں ہیں اور تم ہی ان کے مالک ہو۔ تمہاری مساعی اور قربانیاں آزادی کی منزل قریب کرنے کے لیے سرمایہ ہیں۔