جمعه 15/نوامبر/2024

پانی کی مصنوعی قلت ۔۔ فلسطینیوں کےخلاف صہیونی انتقام کا نیا حربہ

جمعہ 17-جون-2016

ماہ صیام اور موسم گرما کے ایک ساتھ آتے ہی فلسطین میں اسرائیل کی انتقامی سیاست میں بھی شدت آ جاتی ہے۔ فلسطین کے مختلف علاقوں میں پانی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے فلسطینی روزہ داروں کی زندگی اجیرن بنانا غاصب صہیونی اور قابض انتظامیہ کا من پسند مشغلہ بن چکا ہے۔

فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں پانی کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کے بعد صہیونیوں کی جانب سے وادی اردن کے شہریوں کو بھی پانی سے محروم کرتے ہوئے ان کے لیے کربلا کی کیفیت پیدا کرنے کی پوری طرح منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔

ادھر غزہ کی پٹی میں اسرائیلی پابندیوں کے باعث 95 فی صد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے اور مسلسل ناکہ بندی کے باعث بعض علاقوں میں پانی کی فراہمی بھی بری طرح تعطل کا شکار رہتی ہے۔

ایسے میں فلسطینی اتھارٹی کا کردار بھی انتہائی منفی اور ناقابل قبول ہے کیونکہ فلسطینی اتھارٹی فلسطینیوں کو پانی کا حق دلوانے میں بھی بری طرح ناکام رہی ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بالعموم موسم گرما بالخصوص رمضان المبارک کے ایام میں پانی کی مصنوعی قلت پیدا کرنا اسرائیل کی ایک طے شدہ حکمت عملی اور پالیسی کا حصہ ہے۔ اس ظالمانہ پالیسی کا مقصد فلسطینی شہریوں کو پیاسا رکھنے کا مکروہ انتقامی حربہ اختیار کرتے ہوئے روزہ داروں کی زندگی اجیرن بنانا ہے۔

وادی اردن کا علاقہ اسرائیل کی نام نہاد واٹراتھارٹی کے اوباشوں کے نرغے میں رہتا ہے۔ اسرائیلی سول انتظامیہ کے غنڈے فلسطینی قصبوں میں پانی فراہم کرنے والی ٹریکٹر ٹرالیوں کا تعاقب کرتے ہوئے ان سے پانی چھین لیتے ہیں اور وہ پانی یا توضائع کر دیا جاتا ہے یا اسےیہودی آباد کاروں کو دے دیا جاتا ہے۔

ایسا ہی ایک واقعہ حال ہی میں نو رمضان المبارک کو ادی اردن میں اس وقت پیش آیا جب اسرائیلی انتظامیہ نے مقامی فلسطینی شہری محمد عبدالقادر ابو عواد سے ان کا ٹریکٹر اور پانی کی ٹینکی چھین لی گئی۔ وہ پانی اپنے گھر، مویشیوں اور اہل محلہ کے لیے لے جا رہے تھے کہ قابض انتظامیہ نے ان کا ٹریکٹر اور اس کے ساتھ بندھی پانی کی ٹینکی دونوں چھین لیے۔

فلسطینیوں کو پیاسا رکھنے کی مجرمانہ پالیسی
ابو عواد نے اپنی بپتا مرکزاطلاعات فلسطین سے بھی شیئر کی اور بتایا کہ اسرائیلی سول اور فوجی انتظامیہ نے ان کا ٹریکٹر اوراس کے ساتھ بندی ٹینکی قبضے میں لینے کے بعد ایک فوجی کیمپ میں منتقل کردی، مجھے کہا گیا ہے کہ میں اس سلسلے میں بات کرنے کے لیے خود کیمپ میں اسرائیلی فوج کے سامنے  پیش ہو جاؤں۔

ابو عواد نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں جب اسرائیلی انتظامیہ نے ان کا ٹریکٹر اور پانی کی ٹینکی غصب کی ہے۔ اس نوعیت کے واقعات اب تواتر کے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔ ان کا اصل محرک اور مقصد مقامی فلسطینی آبادی کو تنگ کر کے انہیں علاقہ چھوڑ دینے پر مجبور کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وادی المالح، البزیق، سھل البقیعہ اور دیگر مضافاتی علاقوں میں پانی کے وسائل پریہودی آباد کاروں اور صہیونی فوج کا قبضہ ہے۔ فلسطینی کنوؤں سے پانی بھرلانے کی کوشش کرتے ہیں توانہیں انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حال ہی میں اسرائیلی فوجیوں نے مشرقی طوباس کے ابزیق قصبے سے حسن الحروب نامی ایک شہری کو صرف اس لیے حراست میں لے لیا کہ وہ ٹریکٹر ٹرالی کے پیچھے پانی کی ٹینکی باندھ کر اپنے قصبے کو پانی فراہم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ صہیونی فوجیوں نے نہ صرف الحروب کو حراست میں لیا بلکہ اس کا ٹریکٹر اور پانی کی ٹینکی بھی ضبط کر لی گئی۔

حسن الحروب کو اس کے ٹریکٹر سے ایسے اتارا گیا جیسے وہ کوئی انتہائی خطرناک دہشت گرد ہو اور صہیونی ریاست کے لیے سیکیورٹی ریسک بن جائے۔

ابزیق اور کئی دوسرے فلسطینی دورافتادہ قصبات میں پانی کی قلت کا عالم یہ ہے کہ اسرائیلی انتظامیہ انہیں ایک گلاس پانی تک حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتی اور بعض اوقات ایک گلاس پانی کی قیمت 25 شیکل تک جا پہنچتی ہے جو کہ پانی کی مروجہ قیمت سے سات گنا زیادہ ہے۔

چوہے بلی کا کھیل یا بقا کی جنگ
وادی اردن اور فلسطین کے دوسرے شہروں میں پانی کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کا مقصد وہاں رہنے والے فلسطینیوں کو جبراً بے دخل کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ سھل البقیعہ کے ایک مقامی شہری اور سرکردہ سماجی کارکن محسن بشارات کا کہنا ہے کہ ’’نہ تو صہیونی ہمیں ہمارے حال پر چھوڑتے ہیں اور نہ ہم انہیں وہاں سے بے دخل کرسکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں مجبورا ان کے فیصلے ماننا پڑتے ہیں‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ پانی کی بناء پر چوہے بلی کا کھیل بنا ہوا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے محسن بشارات کا کہنا تھا کہ پانی کی قلت یا فلسطینیوں کو پانی سے روکنے کا مقصد انہیں علاقہ چھوڑنے پر مجبور کرنا ہے۔ یہ کسی ایک قصبے کا قصہ نہیں بلکہ تمام فلسطینی قصبات میں ایک ہی جیسی کیفیت ہے اور ہرطرف فلسطینیوں کے لیے مشکلات ہیں۔

اسرائیلی ہمیں ہرصورت میں علاقہ چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں اور تلے ہوئے ہیں کہ ہم قصبے اور اپنی زمینیں ان کے لیے خالی کردیں۔ پانی کی قلت ان حربوں کا حصہ ہے جو فلسطینیوں کے خلاف انتقامی پالیسی کے تحت اپنائے جاتے ہیں۔

محسن بشارات کا کہنا ہے کہ علاقے میں انفراسٹرکچر بہتر ہو جائے تو پانی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے مگر بدقسمتی سے اسرائیل فلسطینیوں کی وجہ سے انفراسٹرکچر ٹھیک کرنے کے بجائے ان کے لیے اور بھی مشکلات پیدا کر رہا ہے۔

المالح کے مقامی فلسطینی عہدیدار عارف دراغمہ نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ  پانی کے بغیر کوئی بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسرائیل پانی کی قلت پیدا کر کے وادی اردن کے شہریوں کو خود ہی علاقوں سے نقل مکانی پرمجبور کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی شہری مشکلات برداشت کر رہے ہیں مگر وہ صہیونیوں کے سامنے کبھی نہیں جھکیں گے۔

خیال رہے کہ فلسطینیوں کو پیاس میں مبتلا کرنے کی پالیسی کا اندازہ اس امرسے لگایا جا سکتا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں پانی کی فراہمی کے 97 جاری منصوبے بند کر دیے گئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر منصوبے سیکٹر C میں قائم کیے گئے تھے۔

خشک علاقوں میں فلسطینیوں کو صرف 15 فیصد پانی کے وسائل فراہم کیے گئے ہیں جب کہ 85 فی صد وسائل پرصہیونی قابض ہیں۔ اسرائیلی دریائے اردن، طبریا اور بحر مردار کے پانی کے وسائل کے ساتھ ساتھ سالانہ 750 مکعب میٹر پانی استعمال کرتے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی