جمعه 15/نوامبر/2024

مزاحمتی کارروائیوں پر 30 سال قید کی سزا کا نیا اسرائیلی قانون منظور

جمعہ 17-جون-2016

اسرائیلی پارلیمنٹ نے ایک نیا متنازع قانون منظور کیا ہے جس کے تحت اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کارروائیوں کے الزام میں گرفتار فلسطینیوں کو کم سے کم 30 قید کی سزا دی جا سکے گی۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ میں یہ مسودہ قانون وزیرقانون ایلیت شاکید نے پیش کیا تھا جس پرپہلی، دوسری اور تیسری رائے شماری کی گئی اور 57 ارکان کی اکثریت سے مسودہ قانون کو منظور کرتے ہوئے اسے صہیونی ریاست کے قانون کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے مسودہ قانون کی 16 عرب ارکان کنیسٹ نے مخالفت کی۔

اس نئے قانون میں فلسطینیوں کی جانب سے مزاحمتی کارروائیوں کو’’دہشت گردی‘‘ قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اسرائیلی مفادات پر حملے کرنے والوں کے ساتھ انسداد دہشت گردی قانون کے تحت نمٹا جائے گا اور اس قانون کے تحت مزاحمتی کارروائیوں کے الزام میں گرفتار افراد کو 30 سال تک قید کی سزا دی جا سکے گی۔

نئےقانون میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے اور مزاحمت کاروں کی معاونت کو برابر سنگین جرم قرار دیا گیا ہے۔ دونوں کو یکساں نوعیت کی سزا دی جا سکے گی۔

کسی فلسطینی مزاحمتی تنظیم کی قیادت کرنے کے جرم میں کم سے کم سزا ایک بار عمر قید ہو گی۔ اس کے علاوہ مزاحمت کاروں کو اسلحہ فروخت کرنے، کسی مزاحمتی تنظیم میں شمولیت اختیار کرنے، فدائی کارروائیوں اور عسکری تربیت فراہم کرنے کے ملزم کو بھی سنگین سزائیں دی جائیں گی۔

نئے قانون میں اسرائیلی  سلامتی کے وزیر، وزیراعظم، داخلی سلامتی کے ذمہ داروں اور عدالتوں کو مزید با اختیار بنایا گیا ہے۔

دوسری جانب اسرائیلی پارلیمنٹ میں شامل عرب ارکان پر مشتمل ’’عرب الائنس‘‘ نے نئے قانون کو مسترد کر دیا ہے۔ عرب ارکان کا کہنا ہے کہ نئے قانون میں فلسطینیوں کے خلاف پابندیاں عاید کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس قانون کی رو سے فلسطینیوں کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر بھی پابندی لگ سکتی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی