پنج شنبه 01/می/2025

لنگر خانہ خاصکی سلطان۔۔۔ ضرور مندوں کا قبلہ!

منگل 14-جون-2016

خلافت عثمانیہ کےعظیم الشان اور رعایا پرور شہنشاہ سلطان سلیمان خان القانونی کے نام سے کون واقف نہیں۔ پانچ صدیاں قبل انہوں نے نہ صرف ایک وسیع وعریض سلطنت میں امن وانصاف کا بول بالا کیا بلکہ حقیقی معنوں میں عوام دوستی اور رعایا پروری کے لا زوال نمونے قائم کیے جنہیں آج تک کی نسلیں بھی بھول نہیں پائی ہیں۔

صرف سلطان سلیمان ہی نہیں بلکہ عوام کی خدمت ان کے دربار سے وابستہ ہراہم شخصیت اور ان کی درجن بھر بگیمات کا بھی طرہ امتیاز بن گیا تھا۔ پانچ صدیاں پہلے انہوں نے عوام پروری کے لیے جو اقدامات کیے، ان میں سے بعض کی یادگاریں آج بھی موجود ہیں۔

تاریخ
مرکزاطلاعات فلسطین نے بیت المقدس میں عثمانی خلیفہ سلطان سلیمان القانونی کی بیگم خاصکی سلطان کے قائم کردہ ایک تاریخی لنگر خانے کا احوال بیان کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق تاریخی یادگاروں میں سلطان سلیمان خان القانونی کی چہتی بیگم ’’ملکہ خاصکی سلطان‘‘ بھی شامل تھیں،جنہیں آج بھی اہل فلسطین محبت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ملکہ خاصکی کا تعلق سلطان کا آبائی تعلق روس سے تھا تاہم وہ ترک خیلفہ کے حرم سرا کا حصہ بننے کے بعد ترک خلافت کی مہ جبینوں میں ایسے شامل ہوئیں کہ آج تک ان کے نام لیوا موجود ہیں۔

ملکہ خاصکی سلطان نے سنہ 1552ء میں فلسطین کے تاریخی شہر بیت المقدس کا دورہ کیا اور مسجد اقصیٰ کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ وہ فلسطین اور دنیا کے کونے کونے سے بیت المقدس آنے والے مسلمانوں اور قبلہ اول کی زیارت کا شرف حاصل کرنے والے فرزندان توحید کے قبلہ اول سے محبت کے جذبے سے حد درجہ متاثر ہوئیں۔ اسی جذبے نے اُنہیں قبلہ اول کے  پہلو میں ایک مفت لنگرخانہ کے قیام پر ابھارا۔ چنانچہ انہوں نے مسجد اقصیٰ کے زائرین اورغریب مقامی خاندانوں کے لیے لنگر کا اہتمام کردیا۔ بعد ازاں یہ لنگر خلافت عثمانیہ کے اختتام تک خلافت ہی کے زیرانتظام چلتا رہا  تاہم سقوط خلافت کے بعد مقامی مخیر حضرات نے اسے بند نہ ہونے دیا۔ یہ ’سلسلہ خیر‘ آج تک جاری و ساری ہے جس سے روزانہ سیکڑوں ضرورت مند خاندان اپنے طعام کی ضرورت پوری کرتے ہیں اور مخیر حضرات خاصکی سلطان کے صدقہ جاریہ کو آگے بڑھاتے ہیں۔

یہ لنگر خانہ بیت المقدس کے سیکڑوں غریب خاندانوں کے لیے صبح شام طعام کا ذریعہ ہے، جہاں فلسطینی بچے،بوڑھے ، مرد اور خواتین سبھی نہایت سلیقے سے قطاروں میں لگتے اور کھانا وصول کرکے گھروں کولوٹ جاتے ہیں۔ جو لوگ وہیں بیٹھ کرکھانا چاہیں ان کے لیے دسترخوان سجایا جاتا ہے اور ہرشخص خوب سیرہوکر وہاں سے اٹھتا ہے۔

یہ لنگرخانہ پچھلے 463 سال سے’’تکیہ خاصکی سلطان‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس وقت اس کا انتظام وانصرام اردنی محکمہ اوقاف اور متحدہ عرب امارات کے فلاحی ادارے’’ہلال احمر الامارات‘‘ کے پاس ہے۔

تکیہ خاصکی سلطان ایک مہمان خانہ
لنگرخانہ کے موجودہ منتظم عبداللہ عجاج کا کہنا ہے کہ سلطان سلیمان القانونی کی چہتی ملکہ ’’خاصکی سلطان بیگم‘‘ کا یاد گار لنگر دراصل ایک مہمان خانہ ہے جس میں غریب اور مستحق افراد کے کھانے کا صبح وشام انتظام کیا جاتا ہے۔ کھانے کی تقسیم میں کسی چھوٹے، بڑے، مسلمان ،غیرمسلم،عیسائی حتیٰ کہ یا یہودی میں کوئی تفریق نہیں کی جاتی۔ یہاں سے کھانا حاصل کرنے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ یہودی بھی ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ عموماً یہاں سے 117 خاندانوں کو روز مرہ کی بنیاد پر کھانا فراہم کیا جاتا ہے تاہم بعض مواقع پر ضرورت مندوں کی تعداد  میں غیرمعمولی اضافہ بھی ہوجاتا ہے ماہ صیام میں ایک ہزار سے 3000 افراد کے سحر وافطار کا انتظام کیا جاتا ہے۔ لیلۃ القدر میں لنگر سے استفادہ کرنے والے خاندانوں کی تعداد پانچ سو سے تجاوز کرجاتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں لنگرخانہ کے منتظم کا کہنا تھا کہ بیت المقدس میں اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف عاید اقتصادی پابندیوں نے لنگرخانہ کی ضرورت مزید بڑھا دی ہے۔ صہیونی حکومت کی جانب سے بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں پر ٹیکسوں کے بھاری بوجھ ڈال دیے گئے ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے وہ بھاری بوجھ برداشت کرنا اب مشکل ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ روزمرہ کی تمام ضروریات پوری نہ کرپانے کے بعد لنگرخانہ سے کھانے کے حصول پرمجبور ہوتے ہیں۔

اردنی وزارت اوقاف، فلسطینی محکمہ اوقاف اوراماراتی ہلال احمرکی جانب سے لنگرخانہ کو نہ صرف جاری رکھنے کے لیے فنڈزفراہم کیے جاتے ہیں بلکہ غریب خاندانوں کے لیے انواع واقسام کے کھانوں کو معیاری انداز میں پیش کرنے کے لیے بھی ہدایت کی گئی ہے۔

ضرورت مندوں کا قبلہ

روز مرہ کی بنیاد پر خاصکی سلطان کے لنگر خانہ میں سیکڑوں خواتین، مرد اور بچے آتے اور کھانا لے جاتے ہیں۔ کھانے کی تقسیم کے اوقات کار متعین ہیں اور ضرورت مند شہری ان اوقات سے بہ خوبی واقف ہوتے ہیں۔ کھانے کی تقسیم کے وقت سب لوگ برتن ہاتھ میں اٹھائے نہایت سلیقے کے ساتھ قطاروں میں لگ کر کھانا حاصل کرتے ہیں۔ منتظمین بھی نہایت ہنرمندی کے ساتھ سب میں برابر مقدار میں چاول، روٹی، سالن، گوشت اور ترکاری تقسیم کرتے ہیں۔

بیت المقدس کی ایک مقامی خاتون کے غریب پرورلنگر خانہ کے بارے میں تاثرات کچھ اس طرح کےہیں’’میرے شوہر بیمار ہیں اور بچے چھوٹےہیں۔ میں خود گھروں میں کام کاج کر کے بچوں کے اسکولوں کی فیسوں، پانی اور بجلی کےبلات کا انتظام کرتی ہوں لیکن اللہ نے ہمارے کھانے کا انتظام اس لنگر خانہ سے وابستہ کررکھا ہے۔ جہاں ہمیں اپنی ضرورت کے مطابق صبح و شام بہت ہی معیاری کھانا مل جاتا ہے۔ میری پریشانی دراصل اسرائیل کی جانب سے عاید کردہ بے شمار ٹیکسزہیں۔ حال ہی میں اسرائیل نے بیت المقدس کے باشندوں پر ’’ارنونا‘‘ نامی ٹٰکس  لاگو کیا ہے۔ پانی، بجلی کے بلات کے ساتھ ساتھ ہمیں بیت المقدس کے باشندے ہونے کی بھی سزا دی جاتی ہے۔ بغیر کسی جرم کے ہمیں جرمانے کیے جاتے ہیں تاکہ ہم ہمت ہارکر شہر چھوڑ دیں۔ ایسے میں یہ لنگرخانہ ہم جیسے دسیوں کئی غریب گھرانوں کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔ تاہم اگر یہ غریب پرور لنگر خانہ بھی نہ ہوتا تو ہم لوگوں کا یہاں جینا محال تھا‘‘۔

خاصکی سلطان کے لنگرخانہ سے مستفید ہونے والوں میں نہ صرف بیت المقدس کے شہری شامل ہیں بلکہ غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے سے بیت المقدس کے اسپتالوں میں آئے افراد بھی یہاں سے بھرپور فایدہ اٹھاتے ہیں۔

یہ لنگرخانہ سنہ 1552ء میں قائم کیا گیا اور بغیر کسی توقف کے آج تک جاری و ساری ہے۔ اس میں معمول کے ایام میں چار سے چھ باورچی کام کرتے ہیں لیکن رمضان المبارک میں ان کی تعداد نو تک پہنچ جاتی ہے۔ عام دنوں میں روزانہ 200 کلوگرام چکن اور 120 کلو گرام مٹن پکایا جاتا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی