قابض اسرائیل اور اس کی درندہ صفت سپاہ میں مظلوم اور بے بس فلسطینی کیسے زندگی بسرکرتے ہیں، اس کی خبریں آئے روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ پرامن مظاہرین پر صہیونی فوجی طاقت کا کیسے وحشیانہ استعمال کرتے ہوئے نہتے شہریوں کو جان سے مارنے یا انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معذور بنا دیتے ہیں۔ اسرائیلی درندگی کے نتیجے میں زندگی بھر اپاہج ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال 22 سالہ حسن زغلول نامی ایک نوجوان ہیں جن کی زندگی تو بچ گئی مگر وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مفلوج اور اپاہج ہو گئے ہیں۔ حسن کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ اپنے 13 سالہ بھائی کو ایک احتجاجی مظاہرے سے واپس لانے کے لیے ریلی میں گیا جہاں اسرائیلی فوجیوں نے اسے اور اس کے دو دوسرے ساتھیوں کو گولیاں ماریں، جس کے نتیجے میں اس کے دونوں ساتھی موقع پر ہی شہید ہو گئے جب حسن بچ تو گیا مگر اب وہ پوری زندگی دوسروں کے سہارے پر رہے گا۔
حسن زغلول کا کہنا ہے کہ اسے یقین نہیں کہ وہ کیسے زندہ بچ گیا کیونکہ موت تو اس سے صفر کے فاصلے پر تھی، کیونکہ اس کے دو ساتھیوں کو اسرائیلی فوج اس کے دائیں بائیں شہید کر چکی تھی اور اسے بھی تین گولیاں ماری جا چکی تھیں مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔
واقعہ کیا ہوا تھا؟
حسن زغلول نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سنہ 2012ء کا واقعہ ہے جب غزہ اور مغربی کنارے کے درمیان بیت حانون گذرگاہ کی بندش کے خلاف فلسطینی شہریوں نے ایک پرامن ریلی نکالی۔ اس ریلی میں میرا چھوٹا بھائی 13 سالہ محمد بھی چلا گیا تھا۔ جب مجھے پتا چلا کہ میرا بھائی احتجاجی مظاہرے میں گیا ہے تو مجھے پریشانی ہوئی کیونکہ اسرائیلی فوج کی جانب سے مظاہرین پر طاقت کے استعمال کا خدشتہ تھا۔ بعد ازاں وہ خدشہ درست ثابت ہوا۔
حسن نے بتایا کہ جب میں ریلی میں پہنچا تو اسرائیلی فوج کی طرف سے مظاہرین پر فائرنگ، آنسوگیس کی شیلنگ اور ربڑی کی گولیوں کی بوچھاڑ شروع کی جا چکی تھی۔ اچانک ہمارے اگر گرد بھی گولیاں لگنا شروع ہوئیں تو میں اور میرے ساتھ دو افراد نوجوانوں نے سیمنٹ کے ایک بلاک کی اوٹ میں خود کو چھپانے کی کوشش کی۔ کچھ دیر کے بعد میرے ایک ساتھی نے اوپر اٹھ کر دیکھنے کی کوشش کی تو کچھ ہی فاصلے پر کھڑے اسرائیلی فوجی نے اس کے سینے میں کئی گولیاں اتار دیں اور وہ وہیں شہید ہو گیا۔ ہمیں اپنی اپنی جانوں کے لالے پڑے تھے اس لیے ہم شہید کی کوئی مدد نہ کر سکے۔ تھوڑی دیربعد دوسرا نوجوان بھی اٹھا اور اس نے بلند آوازمیں مدد کے لیے پکارا۔ اس کے ساتھ ہی گولیوں کا ایک اور بریسٹ آیا جس نے اس کے جسم کو چھلنی کر دیا۔ مجھے اس وقت تک ایک گولی لگ چکی تھی۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد اسرائیلی فوجی میرے قریب آئے اور وقفے وقفے سے میری پنڈیوں میں دو گولیاں ماریں۔ مجھے ایسے لگا کہ میری پنڈیوں کا گوشت نوچ لیا گیا ہے۔
میں بھی زندگی اور موت کی کشمکش میں کئی گھنٹے وہاں پڑا رہا۔ کئی گھنٹوں بعد کچھ لوگ ہمارے قریب آئے۔ انہوں نے پہلے دونوں شہداء کے جسد خاکی اور پھر مجھے ایک تانگے پرلادا وہاں سے چل پڑے۔ کچھ فاصلہ طے کرکے مجھے موٹرسائیکل سواروں کے حوالے کیا گیا جنوں نے ایک ایمبولینس تک پہنچایا اور وہاں سے مجھے غزہ کے الاقصیٰ اسپتال منتقل کردیا گیا۔
اسپتال لائے جانے کے بعد جب مجھے ہوش آیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ میرے دونوں ساتھی موقع پر ہی شہید ہو چکے ہیں۔ موت میرے قریب سے گذرگئی مگر میں ابھی زندہ ہوں اور میری سانسیں باقی ہیں۔
حسن نے بتایا کہ زخمی ہونے کے المناک واقعے نے میری زندگی پرگہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ میری یاداشت، بینائی، قوت سماعت سب بری طرح متاثرہ ہوئے ہیں۔
علاج کا کٹھن سفر
زخمی اور معذور ہونے والے حسن زغلول کی والدہ نے بتایا کہ گولیاں لگنے سے حسن کی ایک پنڈلی بری طرح پھٹ چکی تھی۔ اسرائیلی فوجیوں نے ایسے ممنوعہ اسلحے کا استعمال کیا تھا، جس کے نتیجے میں حسن کی پنڈل کا گوشت پھٹ چکا تھا۔
غزہ کی پٹی میں الاقصیٰ اسپتال میں علاج کی کوشش ناکام ہوئی تو بیت المقدس میں المقاصد اسپتال لے جایا گیا۔ جہاں تین بار اس کی ٹانگ کی سرجری ہوئی اور آخر کار ڈاکٹروں نے بھی یہ کہہ کر اسپتال سے نکال دیا کہ اس کے زخموں کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔
زخمی بچے کی والدہ نے بتایا کہ جب المقاصد اسپتال لایا گیا تو حسن کی ٹانگ پر 25 سینٹی میٹر لمبا اور پھیلا ہوا زخم تھا۔ علاج کی تمام ترکوششوں کے باوجود وہ بچے کی معذوری دور کرنے میں ناکام رہے ہیں، اب ہمارے پاس حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے سوا کچھ نہیں بچا ہے۔
برسرعام شہریوں کا قتل عام
حسن زغلول نے بتایا کہ بیت حانون میں منعقدہ احتجاجی ریلی سے یہ سبق ضرور ملا ہے کہ فلسطینی چاہے پرامن ہی کیوں نہ ہوں مگر صہیونی فوج ان کے خلاف کھلے عام دہشت گردی کا ارتکاب کرتی اور برسرعام شہریوں کو قتل کرتی ہے۔ اس کی مثال میرے ساتھ دو نوجوانوں کا قتل ہے۔ دونوں میرے آس پاس تھے۔ ان کے پاس کوئی اسلحہ تھا نہ ہی کوئی دوسری خطرناک چیز۔ دونوں نے کھڑے ہو کر اپنی جانیں بچانے کے لیے بلند آواز میں کہا کہ وہ نہتے ہیں اور جانوں کی امان چاہتے ہیں مگران کی کوئی بات نہیں سنی گئی اور دونوں کو نہایت بے دردی کے ساتھ گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔
حسن نے بتایا کہ اس کے قریب زمین پرلیٹے ایک نوجوان نے اسرائیلی فوجیوں کو آواز دی کہ کیا میں یہاں سے نکل سکتا ہوں۔ اس کے جواب میں ایک فوجی نے کہا کہ ہاں آپ کو وہاں سے نکلنے کی اجازت ہے۔ جب وہ کھڑا ہوا تو چار میٹر کے فاصلے پر کھڑے فوجی نے اپنی بندوق کی کئی گولیاں اس کے سینے میں اتار دیں۔ جب دوسرے نوجوان نے کھڑے ہونے کی کوشش کی تو میں نے اسے اٹھنے سے منع کیا اور کہا وہ[اسرائیلی فوجی] تجھے بھی مار ڈالیں گے، مگر اس نے بھی اسرائیلی فوجیوں سے کہا کہ وہ اسے چھوڑ دیں۔ فوجیوں نے کہا تم جا سکتے ہو۔ جب وہ کھڑا ہوا تو اسے بھی گولیوں سے بھون ڈالا گیا تھا۔
دونوں میرے قریب پڑے تڑپ رہے تھے۔ زندگی کے اس قدر خوفناک لمحات میں نے کبھی نہیں دیکھے۔ میں وہ وقت کبھی بھلا نہیں پاؤں گا۔ جب حسن سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے قریب شہید ہونے والے نوجوانوں سے واقف تھا تو اس نے بتایا میں ان کے نام تو نہیں جانتا تھا البتہ یہ معلوم ہوا تھا کہ ایک المغازی کیمپ اور دوسرا دیر البلح کا رہنے والا ہے۔