اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل ہزاروں فلسطینی عالم اسلام میں سایہ فگن ماہ صیام اس عزم کے ساتھ منا رہے ہیں کہ ان کی جدوجہد آزادی اور قربانیاں جلد رنگ لائیں گی اور وہ صہیونی عقوبت خانوں سے آزاد فضاء میں اپنے اہل خانہ کےساتھ زندگی گذاریں گے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق صہیونی عقوبت خانوں میں ماہ صیام گذارنے والوں میں 27 سالہ صابرین ولید ابو شرار نامی ایک خاتون ڈاکٹر بھی ہیں جن کا اسرائیلی قید میں یہ دوسرا ماہ صیام ہے۔
ڈاکٹر صابرین کو صہیونی فوجیوں نے دو سال قبل ان کے آبائی شہرالخلیل سے گرفتار کیا اور ان کے خلاف جعلی الزامات کے تحت مقدمات چلائے گئے۔ انہیں تحقیقات مکمل ہونے تک عدالت میں رکھا گیا اور مسلسل 10 مرتبہ ان کی سزا میں توسیع کی گئی ہے۔ ان کے خلاف باقاعدہ مقدمہ کی کارروائی 15 جولائی 2016ء سے شروع کی جائے گی۔
ڈاکٹر صابرین نے اپنا پہلا ماہ صیام پچھلےسال اسرائیل کے بدنام زمانہ ’’عسقلان‘‘ نامی جیل میں قید تنہائی میں گذارا۔ جیل کی سیاہ کوٹھری کا عالم یہ تھا کہ صابرین کو سحرو افطار کے بارے میں بھی پتا نہیں چل پاتا تھا۔ تفتیش کی آڑ میں روزے کی حالت میں بھی ان پر وحشیانہ تشدد کیا جاتا اور یہ ظالمانہ سلسلہ پورے ماہ صیام میں جاری و ساری رہا۔
زنداں میں روزہ داری
ڈاکٹر صابرین ولید ابو شرارہ کو عسقلان جیل کی جس کال کوٹھری میں بند کیا گیا تھا وہ انتہائی تنگ وتاریک اور ہرقسم کی بنیادی سہولت سے یکسر محروم تھی۔ یہ کوٹھڑی اس قدر تنگ اور زیرزمین تھی کہ باہر مساجد میں ہونے والی اذان کی آواز تک نہیں پہنچ پاتی تھی۔ صابرین کے پاس گھڑی کی سہولت نہ تھی کہ وہ سحر وافطار کے اوقات کا اندازہ کر پاتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نہیں جان پاتی تھی کہ رات کب ہوئی اور دن کب آیا اور کب رخصت ہوا کیونکہ جس کوٹھڑی میں میں مجھے پابند سلاسل رکھا گیا تھا اس میں روشنی نام کی کوئی چیز تک نہیں تھی۔ اس عالم میں صابرین پر کیا گذرتی ہو گی اس کے جذبات کا اندازہ لگانا مشکل ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے وکیل اور ملاقات کرنے والے اقارب کو بتایا کہ میرا وقت گریہ و زاری اور اللہ سے دعا مناجات میں گذرتا تھا۔ باقی مجھے کوئی علم نہیں تھا کہ دن کب چڑھا اور رات کب اتری ہے۔
صابرین کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کو صہیونی فوجیوں نے 7 جون 2015ء کو حراست میں لیا اور اس کے بعد وہ کئی ماہ تک اس سے نہیں مل پائے۔ اس دوران اس کی صحت بری طرح بگڑ گئی تھی اور ہمیں اس کی صحت کے حوالے سے سخت پریشانی اور تشویش لاحق تھی۔
اسیران مرکزاطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوجیوں نے رات کی تاریکی میں صابرین کے گھر پر چھاپہ مارا۔ وہ صابرین کو اٹھا کرایک الگ کمرے میں لے گئے جہاں دو گھنٹے تک چیخ چیخ کر اس سے سوالات پوچھتے۔ اہل خانہ سمیت اہل خانہ بھی صہیونی فوج کے ظالمانہ رویے پر سراپا احتجاج تھے۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ یہودی فوجی صابرین کو چیخ چیخ کر گرفتار کرنے اور دوران حراست ہولناک تشدد کی دھمکیاں دیتے۔ دو گھنٹے کی ذلت آمیز تفتیش کے بعد صہیونی غنڈے صابرین کو ایک گاڑی میں ڈال کرنامعلوم مقام پر لے گئے۔ اہل خانہ کو کچھ نہیں بتایا گیا کہ وہ صابرین کو کہاں اور کیوں لے جا رہے ہیں۔
صابرین کے والد نے دکھ بھرے لہجے میں بتایا کہ اس کی بیٹی کو گرفتاری کے بعد 10 بار عدالت میں پیش کیا گیا ہے اور ہربار اس کی مدت حراست میں مزید توسیع کر دی جاتی ہے۔
اسیرہ کے والد نے بتایا کہ دوران حراست صابرین پر نہ صرف طرح طرح کی پابندیاں عاید کی جاتی رہی ہیں بلکہ انہیں ہولناک تشدد کا بھی نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ انہیں دوماہ تک عسقلان جیل کی ایک ایسی کوٹھری میں رکھا گیا جہاں روشنی تک نہیں آتی تھی۔
خیال رہے کہ گرفتاری سے پانچ ماہ قبل صابرین مصر سے طب کی چھ سالہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس لوٹی تھیں۔ وطن واپسی کے بعد انہوں نے الخلیل شہر کے ایک سرکاری اسپتال میں ایک ڈاکٹر کے طورپر خدمات انجام دینا شروع کی تھیں۔ صہیونی حکام نے صابرین کو حراست میں لیا ہے مگر وہ اس پرنہ تو کوئی الزام عاید کر سکے ہیں اور نہ ان کے پاس فلسطینی خاتون ڈاکٹر کی گرفتاری کا کوئی شروع جواز ہے۔