فلسطین کے ساحلی علاقے غزہ کی پٹی پر انتقامی بنیادوں پر اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ معاشی پابندیوں کے 10 برس مکمل ہونے کو ہیں۔ ظالمانہ ناکہ بندی کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں قائم 80 فی صد کارخانے بند ہو چکے ہیں، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔
غزہ میں انسداد ناکہ بندی کمیٹی کے چیئرمین اور فلسطینی رکن پارلیمنٹ جمال الخضری نے ہفتے کے روز غزہ میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ اسرائیلی حکومت کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی کے نتیجے میں غزہ کی درآمدات وبرآمدات مکمل طور پر بند ہو چکی ہیں جس کے نتیجے میں کارخانوں اور فیکٹریوں کا نظام ٹھپ ہوچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کپڑے، فرنیچر اور غذائی سامان تیار کرنے والی کمپنیاں خام مال نہ ملنے کے باعث بند ہوچکی ہیں، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد بے روزگار ہیں اور ہزاروں گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ناکہ بندی کے نتیجے میں مجموعی طورپر 80 فی صد کارخانے جزوی یا کلی طورپر بند ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں جمال الخضری نے بتایا کہ غزہ کی پٹی پر سنہ 2009ء، سنہ 2012ء اور سنہ 2014ء کو مسلط کردہ وحشیانہ جنگوں نے کارخانوں کے نظام کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر غزہ کی پٹی پر مسلط کردہ معاشی پابندیاں برقرار رہتی ہیں تو اس کے نتیجے میں علاقے میں انسانی المیہ رونما ہو سکتا ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیل نے سنہ 2006ء میں اس وقت غزہ کی پٹی پر معاشی پابندیاں عاید کر دی تھیں جب فلسطین میں منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ نے بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی۔ حماس کی کامیابی کی آڑ میں اسرائیل نے پوری فلسطینی قوم کو ناکہ بندی کی سزا دے رکھی ہے۔