فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پراسرائیل کی طرف سے مسلط کی گئی ناکہ بندی اور مصرکی طرف سے بین الاقوامی گذرگاہ رفح کی بندش کے خلاف علاقے کے سیکڑوں مریضوں نے بیرون ملک علاج کے لیے سفری اجازت دینے اور غزہ میں بندرگاہ کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق جمعرات کے روز سیکڑوں فلسطینی شہریوں نے ساحل سمندر پرایک احتجاجی جلوس نکالا، بعد ازاں کشتیوں پر سوار ہو کرسمندر میں بھی غزہ میں بندرگاہ کے قیام کے حق میں نعرے بازی کی۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر مریضوں کو بیرون ملک سفر کی اجازت دینے کے مطالبات درج تھے۔
اس موقع پر قومی رابطہ کمیٹی کے رکن علاءالدین البطہ نےایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ غزہ کی پٹی میں ہزاروں ایسے مریض ہیں جن کے علاج کے لیے مقامی سطح پر کوئی سہولت میسرنہیں ہے۔ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ یا تو غزہ کی پٹی میں علاج معالجے کی تمام جدید سہولتوں کی فراہمی میں مدد کرے یا غزہ کے مریضوں کو بیرون ملک سفر کی اجازت دینے کے لیے مصر اور اسرائیل پر دباؤ ڈالے۔
علاءالدین البطہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں ان کے ہمراہ احتجاجی مظاہرے میں حصہ لینے والے شہریوں میں گردے، پتھری، جگر اور دیگر امراض کا شکار مریض بھی آئے ہیں۔ ہم نے عالمی برادری، اقوام متحدہ اور ریڈ کراس سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کے مریضوں کے علاج کے لیے بیرون ملک سفری سہولیات کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں کما حقہ پوری کریں۔
قبل ازیں مظاہرین نے غزہ کی اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ ناکہ بندی کے بھی فوری خاتمے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جب تک اسرائیلی پابندیاں موجود ہیں تب تک غزہ کے عوام سکھ کا سانس نہیں لے سکتے۔
خیال رہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل نے سنہ 2006ء میں اس وقت اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں جب فلسطین میں ہونے والے عام انتخابات میں اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ نے بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی۔ غزہ کی ناکہ بندی دو ملین آبادی کو حماس کو ووٹ دینے کی سزا کے طورپر مسلط کی گئی ہے۔
غزہ کی ناکہ بندی اور رفح گذرگاہ کی بندش کے نتیجے میں 30 ہزار فلسطینی اس وقت بیرون سفری پابندیوں کے ہاتھوں مجبورہیں۔ ان میں 8000 فلسطینیوں کی دوسرے ملکوں کی شہریت ہے جو خطرے میں پڑ چکی ہے۔ سرحد کے آر پار پھنسے 1500 خاندانوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہے جب کہ 3000 فلسطینی طلباء بیرون ملک تعلیم کے حق سے محروم ہیں۔