اقوام متحدہ کے ادارہ برائے سائنس وثقافت ’’یونیسکو‘‘ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کی عربی شناخت کی حمایت میں ایک ماہ قبل صادر ہونے والے فیصلے پر فرانسیسی صدر نے اسرائیل سے معافی مانگی ہے اور کہا ہے کہ انہیں افسوس ہے کہ وہ یونیسکو کا القدس سے متعلق فیصلہ تبدیل نہیں کرا سکے ہیں۔ فرانسیسی صدر فرانسو اولاند کی اسرائیل سے معافی پر فلسطینی حلقوں میں سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ فلسطینی کونسل برائے عالمی تعلقات کے چیئرمین باسم نعیم نے کہا ہے کہ صدر اولاند کی طرف سے القدس بارے یونیسکو کے فیصلے پر اعتراض اور فیصلے رکوانے میں ناکامی پر اسرائیل سے معذرت سے ان کی بدنیتی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔
خیال رہے کہ ایک ماہ قبل اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے’’یونیسکو‘‘ نے اپنی ایک قرارداد میں مقبوضہ بیت المقدس کو عرب شہر قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بیت المقدس کی تاریخ اور تہذیب عربی ہے جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ قرارداد میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ القدس کا یہودیت یا عبرانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ القدس کو عربیت کا سرٹیفکیٹ دینے پر اسرائیل اور اس کے عالمی حواری سخت برہم ہوئے تھے۔ ان میں اسرائیل نواز فرانسو اولاند بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے یونیسکو کا القد بارے فیصلہ خلاف حقیقت ہے، جس پر انہیں دکھ پہنچا۔
ڈاکٹر باسم نعیم کا کہنا ہے کہ یونیسکو کا فیصلہ حقائق پرمبنی ہے جب کہ فرانسو اولاند کی نیت میں فتور ہے۔ وہ صہیونیت نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے القدس کو یہودیت کے ساتھ جوڑنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ یونیسکو کے فیصلے کی مذمت کے پس پردہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی وہ مذموم مہم کار فرما ہے جو انہوں نے القدس کے بارے میں فیصلہ صادر ہونے کے بعد پوری دنیا میں شروع کی تھی اور اسرائیل کےحامی ملکوں سے یونیسکو کے فیصلے کی مذمت میں بیانات دلوائے تھے۔