فلسطین میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ صہیونی فوج نے پچھلے سال اکتوبر کے اوائل سے شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ القدس کو ناکام بنانے کی سازشوں کے دوران سوشل میڈیا پر متحرک 28 فلسطینی خواتین سماجی کارکنوں کو بھی گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال رکھا ہے۔
فلسطین اسیران اسٹڈی سینٹر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ خواتین سماجی کارکنوں کو گرفتار کرنا، انہیں ہراساں کرنا، جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنانا اور انہیں قید کی سزائیں دینا صہیونی ریاست کا پرانا وطیرہ ہے مگر پچھلے سال اکتوبر کے بعد خواتین سماجی کارکنوں کے خلاف اسرائیلی اشتعال انگیزی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔
بیان میں بتایا گیا ہے کہ معصوم فلسطینی بچیاں اور سوشل میڈیا پر اسرائیلی جنگی جرائم بے نقاب کرنے کے لیے کوشاں سماجی کارکن قابض صہیونی افواج کا آسان ہدف ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائیٹ’’فیس بک‘‘ پر متحرک 28 خواتین اس وقت بھی قابض اسرائیل کی جیلوں میں قید ہیں۔
بیان میں بتایا گیاہے کہ تحریک انتفاضہ کے گذشتہ سات ماہ کے سماجی کارکنوں بالخصوص خواتین کی ہراسانی اور پکڑ دھکڑ کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ نام نہاد الزامات کی بنیاد پر خواتین ورکروں کو دھر لیا جاتا ہے اور بعد ازاں عدالتوں میں ان کے خلاف جھوٹے الزامات کے تحت مقدمات قائم کرکے نہیں سزائیں دلوائی جاتی ہیں۔
انسانی حقوق مرکز کاکہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں نماز کے لیے آنے والی خواتین بھی صہیونی فوج کے مظالم سے محفوظ نہیں ہیں۔ قابض فوج خواتین کی آمد کو دیگر فلسطینیوں کے لیے حوصلہ افزائی کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ قبلہ اول میں عبادت کے لیے آنے والی خواتین کے ساتھ ساتھ ان کے اہل خانہ اور دیگر اقارب کو بھی قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا رہتا ہے۔پچھلے سات ماہ کے دوران بیت المقدس سے اٹھائیس سماجی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سے چھ ابھی تک پابند سلاسل ہیں۔