اسرائیلی اخبارات نے دعویٰ کیا ہے کہ صہیونی ریاست کے محکمہ آباد کاری نے مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم ایک نئی یہودی کالونی کا باضابطہ اعتراف کیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے غرب اردن میں کسی نئی کالونی کے قیام کا اعتراف کئی سال کے بعد اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کیونکہ اس سے قبل اسرائیل عالمی تنقید سے بچنے کے لیے خفیہ طور پر یہودی کالونیوں میں توسیع اور نئی کالونیوں کے قیام کے لیے کوشاں رہا ہے۔
اسرائیل کے عبرانی اخبار’’ہارٹز‘‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ شعبہ آباد کاری کے ڈائریکٹر جنرل نے حال ہی میں حکومت کو ایک مکتوب ارسال کیا ہے جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ شعبہ آباد کاری نے ’’ھیلی زھاو‘‘ نامی کالونی کے اندر ’’لشام‘‘ نامی ایک نئی کالونی بھی قائم کی ہے کیونکہ حکومت تکنیکی اور سیاسی وجوہات کی بناء پر کالونی کے قیام سے گریزاں رہی ہے۔
اسرائیلی شعبہ آباد کاری کی جانب سے جاری کردہ مکتوب میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ نئی کالونی کے قیام کی اصل ذمہ داری حکومت کی ہے مگرحکومت کی طرف سے تکنیکی اور سیاسی اسباب کی بناء پر کالونی کے قیام کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ اس لیے محکمہ آباد کاری لشام کالونی کے قیام کا اعلان کرتا ہے۔
یہ کالونی مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس اور وسطی شہر رام اللہ کو ملانے والی شاہراہ 5 پر ارئیل اور گوش دان کالونیوں کے درمیان بنائی گئی ہے۔
عبرانی اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے سنہ 1985ء میں لشام یہودی کالونی قائم کرنے اور اس میں 650 رہائشی مکانات تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم بعد ازاں فلسطین میں شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ کے پیش نظر یہاں پر مکانات کی تعداد کم کر دی گئی تھی۔ پچھلے پچیس سال سے یہاں مکانات کی تعمیر کا عمل مکمل طورپر روک دیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ سنہ 1993ء میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان طے پائے اوسلو معاہدے کے بعد اسرائیل نے غرب اردن میں اعلانیہ یہودی کالونیوں کے قیام کا عمل روک دیا تھا، تاہم چپکے سے توسیع پسندی کاعمل مسلسل جاری رہا ہے۔