اسرائیل کی جیل میں انتظامی حراست کی ظالمانہ پالیسی کے خلاف 98 دن تک مسلسل بھوک ہڑتال کرنے والے فلسطینی صحافی محمد اسامہ القیق کی اہلیہ فیحاء شلش نے جس جرات، جواں مردی اور توازن کے ساتھ اپنے شوہرکی رہائی کا مقدمہ لڑا اور فلسطینی ہی نہیں بلکہ علاقائی اور عالمی توجہ القیق کی بھوک ہڑتال کی طرف متوجہ کرائی اس کے بعد شلش کو فلسطین کے بہترین قومی ایوارڈ کا حق دار قرار دینا کوئی حیرت کی بات نہیں۔
فیحا شلش نے پورے تین ماہ تک اپنے پابند سلاسل بھوک ہڑتالی شوہرکی رہائی کے لیے اندرون فلسطین نہایت ذمہ دارانہ انداز میں تحریک چلائی اور اس تحریک کے نتیجے میں صہیونی دشمن کو القیق کی قید کی سزا ختم کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ مگر شلش کی ہمت اور اس کی کارکردگی پراسے فلسطین کا بہترین سول ایوارڈ کا حق دار قرار دینے کا اعلان بھی اسیران کے حقوق کے لیے جدو جہد کرنےوالوں کے لیے ایک نیا حوصلہ ہے۔
محمد اسامہ القیق کو 4 مئی کوصہیونی حراستی مرکز سے رہا کیا گیا۔ اس کی رہائی کی مساعی میں جہاں ذرائع ابلاغ نے اہم کردار ادا کیا وہیں اسیر کی اہلیہ فیحا شلش نے کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔
حال ہی میں غزہ کی پٹی میں فلسطینی وزارت امور خواتین کی جانب سے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں فیحا شلش کو فلسطین کی سال 2015ء کی بہترین خاتون قرار دینے کے ساتھ ساتھ انہیں بہترین صحافیہ اور سماجی کارکن کا اعزاز بھی دیا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ فیحاء کے اعزازات کی فہرست میں رام اللہ میں دیا گیا تمغہ حسن کارکردگی بھی شامل ہے۔
فیحا شلش نے اپنے اسیر اور بھوک ہڑتالی شوہر کی رہائی کے لیے جدو جہد اور فلسطینی قومی اعزازت حاصل کرنے کے حوالے سے مرکزاطلاعات فلسطین سے تفصیلی بات چیت کی۔ ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو پیش خدمت ہے۔
* آپ کو بہترین خاتون ہونے کا ایوارڈ کیوں دیا گیا؟
شلش: میں نے کبھی بھی خود کے لیے کسی ایوارڈ کی درخواست یا تمنا کا اظہار نہیں کیا۔ فلسطینی وزیرہ برائے امور خواتین ڈاکٹر ھیفاء الاغا سے ملاقات کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ وزارت خواتین نے اب تک ایسی 75 خواتین کو قومی تمغے جاری کیے ہیں۔ ان میں میرا نام بھی شامل ہوا ہے۔ کسی بھی خاتون کو ایوارڈ کے لیے منتخب کرنے کے لیے’سلیکشن کمیٹی‘ قائم کی جاتی ہے جو مستحق خواتین کی ایک فہرست مرتب کرتی اور اس کے بعد ان میں سے کسی ایک خاتون کا انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے۔ قومی اعزازت کے لیے نامزد کردہ خواتین کی عوامی، ابلاغی اور سماجی خدمات کو کئی پہلوؤں سے جانچا جاتا ہے۔
میرا نام اس کمیٹی میں اس وقت پیش ہوا جب میرے شوہر[اسامہ القیق] اسرائیلی عقوبت خانے میں بھوک ہڑتال جاری رکھے ہوئے تھے اور ان میں کی رہائی کے لیے مہم میں مصروف تھی۔ میں ذرائع ابلاغ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے القیق کی رہائی کے لیے جاری مہم میں میرا بھرپور ساتھ دیا۔ میری مساعی میں میرے خاندان کے ساتھ ساتھ دیگراحباب، سیاسی جماعتیں اور سماجی کارکن بھی پیش پیش رہے۔ میری انہی خدمات کے اعتراف میں فلسطینی وزارت خواتین نے مجھے سال دو ہزار پندرہ کی بہترین سماجی اور ابلاغی کارکن قرار دیتےہوئے ایک سے زیادہ تمغوں، انعامات اور ایوارڈ سے نوازا۔
* بہترین خاتون کا لقب پانے اور تمغہ وصول کرتے ہوئے آپ نے کیسا محسوس کیا؟
شلش: میں نے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے جدو جہد کی،مگرمجھے کسی لقب اور تمغے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے پوری جرات کے ساتھ اپنے شوہر کا مقدمہ لڑنے کا حوصلہ دیا اور پھر مجھے قومی ایوارڈ کے قابل بنایا۔ میں وزارت خواتین کی بھی تہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے اس قابل سمجھا اور سال 2015ء کی بہترین خاتون قرار دیا۔ اپنے شوہر کی رہائی کے لیے جدو جہد کرنا میرا اخلاقی، دینی اور ابلاغی فرض تھااور میں نے صرف اپنا فرض نبھایا ہے۔
* تمغہ حسن کارکردگی کے حصول کی اہم اسباب کیا ہیں؟
شلش : جب میری کامیاب مہم کے بعد صہیونی میرے شوہر اسامہ القیق کی انتظامی حراست ختم کرنے پر متفق ہوگئے تو میں نے محسوس کیا کہ میں نے اپنا عظیم تر مقصد پورا کرلیا ہے۔ جہاں تک حکومت کی جانب سے سال کی بہترین خاتون کا لقب اور ایوارڈ دیے جانے کی بات ہے تو وہ تنہا میری مساعی کا نتیجہ نہیں۔ اگر میرے ساتھ فلسطین کے تمام ابلاغی ادارے، سماجی تنظیمیں، انسانی حقوق اور اسیران کی بہبود کے لیے جدو جہد کرنے والی انجمنیں اور عوام نہ ہوتے میں نہ صرف اپنے شوہرکی سزا ختم کرنے کی مہم میں کامیاب نہ ہوپاتی بلکہ مجھے کوئی ریاستی ایوارڈ ، تمغہ یا لقب بھی نہ مل پاتا۔
* ایک اسیر کی اہلیہ کی حیثیت سے آپ فلسطینی اسیران کے قضیے کو علاقائی اور عالمی سطح پر اٹھانے کی مساعی کے جلو میں اپنے اعزازت کو کس نظر سے دیکھتی ہیں؟
شلش : اسرائیلی زندانوں میں قید فلسطینی بہن بھائیوں کی رہائی کی کوشش ایک قومی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری قوم کے ہر فرد کو کسی لالچ اور طمع سے ماوراء ہو کرنبھانے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔
میں نے اپنےبھوک ہڑتالی اسیر شوہر کی زندگی بچانے کے لیے جد عزم کے ساتھ جدو جہد کی ہم اس کے ثمرات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ فلسطینی قوم کو تمام اسیران کی رہائی کو اپنی اہم ترین ذمہ داریوں میں شامل کرتے ہوئے قومی، علاقائی اور عالمی سطح پر اس مہم کو اٹھانا چاہیے۔ اسیران کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا مظلوم اور کمزور لوگوں کے حقوق کی جنگ لڑنا ہے۔
* کیا آپ کو ملنے والے اعزازت عوامی بیداری اور تحریک آزادی میں خواتین کے کردار کو مزید نمایاں کرنے میں حوصلہ افزائی کا موجب بنیں گے؟
شلش: فلسطینی خواتین میں ٹیلنٹ کے جوہر کی کوئی کمی نہیں اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں فلسطینی خواتین نمایاں خدمات انجام دیتی چلی آ رہی ہیں۔ کوئی اعلیٰ ایوارڈ یا لقب پانے کی غرض سے قطع نظرمیں خواتین کو یہ تجویز پیش کروں گی کہ وہ اپنے اور پورے قوم کے دفاع کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔
فلسطین کی ایک ایک بچی میں کچھ کرنے اور کرگذرنے کے جوہر موجود ہیں۔ صرف انہیں جلا بخشنے کے لیے ہمت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طورپر میرے شوہر محمد القیق کی بھوک ہڑتال نے مجھے ان کی رہائی کے لیے آمادہ جدو جہد کیا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں القیق کی رہائی کے لیے اس قدر کامیاب مہم چلانے میں کامیاب ہوجاؤں گی۔ مہم کے ابتدائی ایام میں میں خوف زدہ تھی اور مجھے ڈر تھا کہ کہیں میں ناکام نہ ہوجائوں کیونکہ میں نے اپنے کندھے پربھاری ذمہ داری اٹھالی تھی۔ اس موقع نے مجھے ایسا کچھ کرنے کی ہمت عطا کی جو میں عام حالات میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ خواتین اپنے مقصد اور منزل تک پہنچنے کے لیے ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہیں اور حالات کا دھارا یکسر بدل سکتی ہیں۔