اسرائیلی حکومت اور پوری صہیونی ریاستی مشینری مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس کو اسرائیل کا مستقل حصہ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں حالیہ ہفتوں کے دوران یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ دریائے اردن کا مغربی کنارا اسرائیل کے نسل پرستانہ قوانین کا خاص ہدف ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق غرب اردن میں اسرائیلی قوانین کے نفاذ کی سازشوں پر فلسطین، اسرائیل اور عرب ممالک کے ذرائع ابلاغ میں بھی ایک نئی بحث جاری ہے۔ جب سے اسرائیلی انتہا پسند وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور ان کی پارٹی کے دیگر یہودی لیڈروں نے بہ زبان قال اور بہ زبان حال یہ کہنا شروع کیا ہے کہ وہ غرب اردن میں اسرائیلی قوانین کے نفاذ کو آگے بڑھا رہے ہیں اسرائیلی میڈیا نے اس کے لیے راہ ہموار کرنا شروع کر دی ہے۔ نیتن یاھو اور ان کے حاشیہ نشینوں کے حالیہ بیانات جن میں وہ غرب اردن میں اسرائیلی قوانین کے نفاذ کی بات کرتے ہیں کے درپردہ اصل مقصد غرب اردن کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کی سازش کرنا ہے۔
دو ہفتے قبل اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے اپنی پوری کابینہ کو شام کے مقبوضہ علاقے وادی گولان میں بلایا اور کابینہ کے اجلاس کے دوران ببانگ دھل یہ دعویٰ کیا ہے کہ وادی گولان اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہے اور اسے کسی صورت میں اسرائیل کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ وادی گولان کو اسرائیل کا اٹوٹ انگ قرار دینے اور مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کے سرکاری قوانین کے نفاذ کی باتیں زمانی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ اسرائیل کی طرف سے یہ ڈرامہ ایک ایسے وقت میں رچایا جا رہا ہے جب انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں سلامتی کونسل میں مسئلہ فلسطین اور مقبوضہ علاقوں میں یہودی آباد کاری کا مسئلہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اسرائیلی حکومت کی حالیہ پالیسیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تل ابیب ایک مکمل حکمت عملی کے تحت غرب اردن کو اسرائیل کا اٹوٹ انگ قرار دینے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ ساری پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حال ہی میں اسرائیلی وزیرقانون ایلٹ شاکیڈ نے کہا ہے کہ وہ پارلیمنٹ اور کابینہ میں ایک نیا مسودہ قانون پیش کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
صہیونی خاتون وزیرہ کا کہنا تھا کہ وہ گرین زون [سنہ 1948ء کے علاقے] کے درمیان قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانے کے لیے قانونی مساوات قائم کرنا چاہتے ہیں۔
ایلٹ چاکیڈ کا کہنا تھا کہ وہ غرب اردن اور فلسطین کے دوسرے شہروں میں یکساں سیکیورٹی قوانین نافذ کرنا چاہتے ہیں تاکہ غرب اردن کو بھی اسرائیل کا حصہ قرار دینے کے لیے کوششوں کو آگے بڑھایا جا سکے۔
قبل ازیں اسرائیلی سیاست دان جیوش ہوم کے سربراہ نفتالی بینت نے ایلیٹ شاکید کے بیان کی کھل کرحمایت کی اور کہا کہ وہ غرب اردن کے سیکٹر C کو اسرائیل کی مکمل قانونی عمل داری میں لانے کے حامی ہیں۔
اسرائیلی وزارت مواصلات کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیاہے کہ وہ غرب اردن کے شہروں میں یہودی آباد کاروں کے لیے 40 ملین شیکل سے نئی موبائل فون سروس متعارف کرا رہی ہے۔ اگلے مرحلے میں یہ سہولت غرب اردن کے فلسطینی شہروں میں میں بھی دی جائے گی۔ اس سازش کا مقصد بھی فلسطینی علاقوں کو صہیونی ریاست کا عملی حصہ بنانے کی کوشش کرنا ہے۔