چهارشنبه 30/آوریل/2025

سوا لاکھ فلسطینی مزدور عالمی شرح اجرت سے محروم: رپورٹ

پیر 2-مئی-2016

مزدوروں کا عالمی دن ایک بار پھر آیا اور اپنے معمول کے مطابق ماضی کا حصہ بن گیا مگر فلسطین کے مزدور کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئی اور نہ اس پر کوئی آواز اٹھائی گئی۔ مرکزاطلاعات فلسطین نے اپنے طور پر فلسطین میں مزدوروں کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ یوم مزدور کی مناسبت سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ  فلسطین میں ایک لاکھ 30 ہزار مزدور عالمی شرح اجرت سے کم پر گذراوقات کرنے پر مجبور ہیں۔

اس ضمن میں جنین شہر کے مھا ابو عیشہ کی مثال پیش کی گئی ہے۔ ابوعیشہ ایک اسکول میں  ماہانہ 400 شیکل یا 100 امریکی ڈالر سے کم اجرت پر کام کرتے ہیں۔ ان کے پاس اس کا کوئی متبادل ذریعہ آمدن بھی نہیں اور نہ ہی کوئی اضافی سلسلہ آمدن ہے۔

ابوعیشہ ان سولا کھ فلسطینیوں میں سے ایک ہیں جو عالمی شرح اجرت سے کئی گنا کم پرگذراوقات کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر مزدور کی  کم سے کم اجرت اسرائیلی کرنسی شیکل میں 1450 شیکل مقرر کی گئی ہے مگر کوئی نہیں جانتا کہ یہ شرح کب اور کیسے نافذ العمل ہو گی۔

طولکرم کی مزدور یونین کی خاتون رکن امینہ حواشتین نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار کو بتایا کہ یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ مزدوروں کو ان کی کما حقہ اجرت نہیں مل رہی ہے بلکہ ذاتی طور پر فلسطینیوں کو زبانیں بند رکھنے پرمجبور کیا جاتا ہے۔ عام کارکنوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کی اجرت کے حقوق کے لیے آواز بلند نہ کریں۔

جنگل میں طوطی کی آواز

حواشین نے مزدوروں اور کم اجرت پیشہ شہریوں کے حقوق کا معاملہ قومی اور عالمی سطح پر اٹھانے میں ناکامی پرذرائع ابلاغ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی ادارے میں اپنی اجرت کے حق کے لیے کوئی آواز بلند کرتا ہے تو اسے سیدھا سادا اور دو ٹوک جواب دے دیا جاتا ہے کہ اگر اسے یہ اجرت قبول نہیں تو کام ہی چھوڑ دے۔

امینہ حواشین کا کہنا تھا کہ فلسطینی ذرائع ابلاغ اور وزارت لیبرکی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی سطح پر مزدور کی اجرت کو عملی شکل دینے کے لیے اقدامات کریں۔ کیونکہ ایک عام شخص کی آواز صدا بہ صحراء ثابت ہوتی ہے۔

فلسطینی سماجی کارکن کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر ایک مزدور کی ماہانہ اجرت 1450 شیکل مقرر کی گئی ہے۔ اسے عملی طور پرنافذ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اس حوالے سے پرلے درجے کی لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

فلسطین میں لیبرفیڈریشن کے رکن ریاض ابو الرب نے بتایا کہ ملک میں ایک لاکھ 30 ہزار افراد ایسے ہیں جو عالمی شرح اجرت سے کم پر گذر اوقات کرنے پرمجبور ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی