یہ بحث کہ کیا ایران کے ساتھ اس کے ایٹمی پروگرام کی بابت بنایا گیا مشترکہ جامع ایکشن پلان مشرقی وسطیٰ کے سٹریٹیجک فریم ورک میں استحکام لانے کا باعث بنے گا جبکہ خطے کا سیاسی جغرافیائی ڈھانچہ بری طرح ہل کر رہ گیا ہواور یہاں مختلف گروہ باہم متحرک ہوں؟ شام میں روس کا یک طرفہ فوجی ایکشن اس خطے میں استحکام لانے میں امریکی کردار کے ، جس کا آغاز1973ء کی عرب اسرائیل جنگ سے ہوا، تابوت میں آخری کیل قرار دیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت اس جنگ کے بعد مصرنے سووویت یونین سے فوجی روابط منقطع کر لیے اورامریکی حمایت سے ہونے والے امن مذاکرات میں شمولیت اختیار کر لی۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں مصر اور اسرائیل کے درمیان پرامن معاہدہ اور اسرائیل اور اردن و شام کے درمیان اقوام متحدہ کی نگرانی میں آئندہ کیلیے فوجی تصادم گریز کا راستہ تجویز کیا گیا۔ گزشتہ چار دہائیوں سے ان معاہدوں پر عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ شام میں خانہ جنگی میں مصروف فریق بھی اس معاہدے کا احترام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان معاہدوں کے علاوہ لبنان کی علاقائی خودمختاری کو یقینی بنانے کیلیے عالمی حمایت بھی حاصل کی گئی۔ صدام حسین نے کویت کو عراق میں شامل کرنے کیلیے فوج کشی کی لیکن امریکی قیادت میں بننے والی عالمی کولیشن فورسز نے اسے فوجی شکست سے دوچار کر کے اس کے عزائم کو خاک میں ملا دیا ۔اس کے بعد امریکی فورسز نے افغانستان اور عراق میں دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی۔ اس جنگ میں مغربی فورسز کے علاوہ مصر، اردن ، سعودی عرب اور خلیجی ریاستیںبھی امریکہ کی حلیف تھیں۔اس وقت ایسا لگتا تھا کہ خطے سے روسی عسکری قوت تحلیل ہو چکی ہے، لیکن موجودہ پیش رفت نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ اب امریکہ کی تحلیل ہوتی ہوئی قوت کے بارے میں تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
آج کل خطے کے سیاسی اور جغرافیائی حالات انتہائی غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں کیونکہ کم از کم چاراہم ریاستیں اپنی عملداری قائم رکھنے میں ناکام ہو چکی ہیں ۔لیبیا ، شام ،یمن اور عراق کے بڑے حصے غیر ریاستی عناصر کے قبضے میں ہیں ، جہاں ریاست کی بجائے ان کا حکم چلتا ہے۔عراق اور شام کا بڑا علاقہ مذہبی انتہاپسند گروہ ،داعش کے کنٹرول میں ہے جہاں اس نے اپنا سخت گیر نظام قائم کر رکھا ہے جبکہ حکومت نامی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی ۔داعش یہاں سے آگے قدم بڑھا کر دیگر علاقوں پر بھی اپنی عملداری قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔بنیادی طور پر اس کا مقصددنیا سے موجودہ ریاستی نظام ختم کرنے اسلامی خلافت کا قیام ہے۔ داعش کے دعوے نے اسلام کے دو بڑے فرقوں ، شیعہ اور سنی، کے درمیان ایک ہزار سالہ تفریق کی لکیر کو مزید گہرا کر کے خطے کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ خطے سے باہر زیادہ تر اسلامی ریاستوں کو داعش کے علاوہ ایران کے شیعہ مسلک کے پھیلاو کا بھی خطر ہ ہے۔انتہا پسند گروہوں کے برعکس ایران ایک آئینی ریاست ہے اور آج کل واشنگٹن کے ساتھ اس کے سفارتی تعلقات بہت سازگار ہیں ۔ یہاں ایران ایک جمہوری اور ذمہ دار ریاست کے طور پر عالمی ذمہ داریاں پوری کرتی دکھائی دیتا ہے، لیکن اس کا ایک اور چہرہ بھی ہے ۔ یعنی وہ، اپنے نظریات سے موافقت رکھنے والے جہادی گروہوں کی سرپرستی کرتاہے، جیسے کہ لبنان اور شام میںحزب اللہ ، یمن میں حوثی اور غزہ میں حماس۔
اسی طرح سنی مسلک رکھنے والے مشرقی وسطیٰ کو چار اطراف سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے: شیعہ مسلک رکھنے والے ایران کی اٹھان ، اسلامی انتہا پسند گروہوں کی عسکری یلغار ، ریاستوں کے اندر شعلہ زن ہونے والی خانہ جنگی جو پہلی جنگ عظیم کی یاد دلاتی ہے ۔ سیاسی ، سماجی اور معاشی سطح پر پڑنے والا داخلی دباو۔شام کی صورت حال اس کی بہت واضح مثال ہے کہ جو چیز پہلے علوی حکمران بشار الاسد کے خلاف ایک سنی بغاوت تھی، اس میں بیرونی طاقتوں بے بھی شمولیت اختیار کر کے اپنے اپنے حامی گروہوں کے معاونت شروع کر دی، جس سے بغاوت کا دائرہ پھیل گیا ۔ ایران نے اسد حکومت کی حمایت شروع کی تو اس کے خلاف لڑنے والوں کو سنی ریاستوں کی طرف سے کمک آنے لگی۔اسی شورش میں داعش نے بھی سر اٹھایا؛ اگرچہ داعش سب سے مہیب خطرہ ہے لیکن خلیج کی سنی ریاستیں شیعہ ایران کے خطرے کو داعش سے بڑا خطرہ مانتی ہیں۔وہ اسد کا تختہ الٹ کر خطے میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر کا راستہ روکنا چاہتی ہیںلیکن وہ داعش کی شکست بھی چاہتی ہیں۔اسی طرح صورتحال انتہائی پیچیدہ ہو چکی ہے۔ ایرانی ایٹمی ڈیل کے بعد خلیج کی سنی ریاستیں ، خطرے کے سائے گہرے ہوتے دیکھ رہی ہیں کیونکہ انہیں احساس ہے کہ ایٹمی ڈیل کے بعد امریکہ خطے میں بڑھنے والا ایرانی ہاتھ نہیں روکے گا۔
امریکی انخلا کے بعد خطے میں ہونے والی کشیدگی اور پھیلنے والی افراتفری نے روس کو یہاں قوم رکھنے کا موقع دے دیا ہے۔ اس نے مشرق وسطیٰ میں جارحانہ انداز میں فوجی کارروائی شروع کر دی تاکہ روسی فتح خطے کے معروضات کو تبدیل کر سکے۔اس وقت روس کی اصل توجہ اسد حکومت کو گرنے سے بچانے پر مرکوز ہے کیونکہ اگر شام میں حکومت باقی نہ رہی تو داعش آگے بڑھ کر دمشق پر قبضہ کر لے گی۔ اسی طرح دہشت گرد شام کو مرکز بنا کر دیگر اسلامی ممالک کو اپنی خلافت کے دائرے میں شامل کرنے کے لیے پیش قدمی کریں گے۔بہت سی اسلامی ریاستوں کے بارڈر روس کے ساتھ بھی لگتے ہیں ، اس لیے روس اس خطرے کو اپنی سرحدوں کے قریب آنے سے روکنا چاہتا ہے۔
بظاہر روس کی مداخلت سے شام میں ایران سے قربت رکھنے والے شیعہ عناصر کو تقویت ملے گی ، لیکن اس معاملے کو گہرائی سے دیکھیں تو روس کا مقصد اسدحکومت کے تسلسل تک محدود نہیں۔ وہ خطے میں طاقت کا توازن پیدا کرتے ہوئے سنی مسلمان دہشت گرد گروہوں کو اپنے جنوبی بارڈر سے دور رکھنے کی کوشش میں ہے۔ اس کے سامنے یہ چیلنج نظریاتی بنیادوں پر نہیں ، سیاسی و جغرافیائی بنیادوں پر ہے۔ مسلمان ریاستیں داعش اور ردیگر اسلامی انتہا پسندوں کی یلغار سے عسکری مسائل کے علاوہ نظریاتی دباو بھی محسوس کر رہے ہے۔اب چاہے خطے میں عسکری بازو آزمانے کے پیچھے روس کا کوئی مقصد ہو، اس کے لیے سب سے بڑی کامیابی ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں میں خطے میں امریکی موجودگی کی وجہ سے وہ یہاں قدم نہیں رکھ سکا، تاہم اب وہ اپنے سامنے کم و بیش میدان صاف پاتا ہے۔
امریکی پالیسی یہ ہے کہ لڑنے والے گروہوں کے درمیان آنے کی بجائے ایک طرف بیٹھ کر اس خانہ جنگی کے انجام کا انتظار کرے۔ اس کے علاوہ طویل جنگ نے اسے ان واقعات کو فیصلہ کن رنگ دینے کے عزم سے تہی داماں کر دیا ہے۔ اس وقت حال یہ ہے کہ امریکہ ،مشرق وسطیٰ میں لڑنے والی تمام جماعتوں کے خلاف ہے اور اس کے خطے کی ریاستوں کے ساتھ بھی مسائل ہیں ۔ اسے مصر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش ہے تو سعودی عرب کی یمن کارروائیں بھی ناگوار۔ ادھر ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ طے پا چکالیکن اسد حکومت کو تسلسل ناقابل قبول ہے ۔ درحقیقت امریکہ نے خود کوشاید ہی کبھی ایسی پیچیدہ صورتحال سے دوچار پایا ہو۔ کچھ عرصہ پہلے تک امریکہ اسد کو ایک لمحہ بھی برداشت کرنے کا روادار نہ تھا، لیکن اب اسے احساس ہو چکا ہے کہ شام کی صورت حال میں اسد حکومت کا خاتمہ مسائل کو مزید گھمبیر کر دے گا۔امریکی تذبذب سے پیدا ہونے والی اس خلا میں ایران ، روس اور داعش نے قدم رکھ دیا ہے ۔ روس اور ایران بشار الاسد کو سہارا دینے کیلیے آگے آئے ہیں ، لیکن تہران کے پیش نظر اپنے نظریات کا پھیلاو بھی ہے ۔ خلیج فارس کی ریاستیں ، اردن اور مصر ، جو خود بھی سیاسی ڈھانچے سے محروم ہیں ، اسد کے حوالے سے امریکی موقف کی حامی ہیں لیکن شام کو ایک اور لیبیابننے نہیں دیکھنا چاہتیں۔
ایران کے بارے میں امریکی پالیسی اب اس کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کا مرکز بن چکی ہے ۔ امریکی انتظامیہ کا اصرار ہے کہ اسے جہادی اور نظریاتی گروہوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ واشنگٹن میں بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ ایران پر ایٹمی معاہدے کے ضمن میں مکمل بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم ایسا کرتے ہوئے امریکہ کو طویل مذاکرات کے ذریعے طے پانے والے معاہدے کو جارحانہ عزائم سے سبوتاژ کرنا ہو گااور صدر اوباما اس کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ امریکہ کی ایران پالیسی نکسن انتظامیہ کے چین کے ساتھ تعلقات کی یاد دلاتی ہے جو داخلی مخالفت کے باوجود جاری رہی، یہاں تک کہ سرد جنگ میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔ یقینا یہ موازنہ موجودہ حالات میں درست نہیں کیونکہ نہ تو اس وقت سرد جنگ ہے اور نہ ہی ایران سوویت یونین ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: ہنری کسنجر