فلسطین میں تحریک انتفاضہ تین ماہ سے جاری ہے۔ ہرآنے والے روز فلسطینی بچے، بوڑھے، جوان، مردو زن تحریک کی لو تیز کرنے کے لیے اپنا خون پیش کررہے ہیں۔ فلسطینی نوجوان ہراعتبار سے قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کررہےہیں۔ مزاحمت کے نئے اور منفرد اسلوب سے دشمن کی انگشت بدنداں ہے اورطاقت، وحشت اور بربریت کے باوجود فلسطینیوں کا جذبہ حریت جوان سے جوان ترہو رہوہا ہے۔ وطن اورقوم کے سلب شدہ حقوق کے حصول کے لیے جاری جدو جہد ثمر آورثابت ہو رہی ہے۔
یکم اکتوبر 2015 ء کے بعد سے تا دم تحریر جاری انتفاضہ کے حوالے سے فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر حمد عطاونہ کی مرکزاطلاعات فلسطین سے گفتگو نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر عطاونہ استنبول میں قائم ’’پولیٹیکل ڈویلپمنٹ ویژن سینٹرکے ڈائریکٹر جنرل ہیں اور فلسطین کی مجموعی صورت حال پر گہری بصیرت رکھتےہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ قومی، علاقائی اور عالمی تنازعات کےعالمی سیاست پرچھا جانے کے علی الرغم تحریک انتفاضہ پوری کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ ہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کی صدرمحمود عباس کی جماعت تحریک فتح انتفاضہ کی چنگاری کو بجھانا چاہتی ہے تاہم یہ درست ہے کہ فتح تحریک انتفاضہ کو مزید طاقت ہونے کے حق میں نہیں۔ فتح بھی موجودہ تحریک کو دو اہم اسباب کی بناء پر سپورٹ کررہی ہے۔ فتحاوی قیادت کا خیال ہے کہ تحریک انتفاضہ کے نتیجے میں اسرائیل کے ساتھ بات چیت کی بحالی کی راہ ہموار ہوگی۔ دوسری جانب تحریک انتفاضہ سے فتح کو یہ خوف لاحق ہے کہ یہ تحریک فتح کو عوامی سطح پر کمزور اور غیرمقبول کررہی ہے۔ با ایں معنی فتح کی جانب سے تحریک انتفاضہ کی حمایت اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کے لیے اور مخالفت اپنی گرتی مقبولیت کو بچانے کے لیے کی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر عطاونہ کے ساتھ ’’مرکزاطلاعات فلسطین‘‘ کی بات چیت ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
فلسطین میں جاری عوامی تحریک انتفاضہ کس سمت میں بڑھ رہی ہے؟
تحریک انتفاضہ کے آغاز کے وقت یہ کہا جا رہا تھا کہ اس تحریک کا آگے بڑھنا مشکل ہے۔ اسی طرح اس کی سمت کا تعین کرنا بھی مشکل ہی سمجھا جا رہا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ تحریک کا کسی پیشگی منصوبہ بندی کے بغیر شروع ہونا تھا۔ اندرون ملک اور علاقائی سطح پر بھی تحریک انتفاضہ کے لیے فضاء سازگار نہ تھی اور اس کی مخالفت بھی کی جا رہی تھی۔ کچھ دنوں کی تحریک انتفاضہ کے بعد موضوعی عوامل نے نہ صرف یہ ثابت کیا ہے کہ یہ تحریک جاری رہے گی بلکہ اس کی درست سمت کا بھی تعین کردیا ہے۔ گوکہ اب بھی بعض اس تحریک کے بارے میں مثبت اور منفی دونوں طرح کی آراء پا ئی جا رہیں۔
کیا عالمی، علاقائی اور فلسطین کے قومی حالات تحریک انتفاضہ کے تسلسل کے لیے سود مند رہیں گے اور یہ کہ عالمی حالات تحریک کے دوام کی اجازت دیں گے؟۔
اصولی طورپر ایک قابض ملک کے ظلم میں پھنسی قوم دشمن کے قبضے کے خاتمے کے لیے حالات کے سازگار ہونے کا انتظارنہیں کرتے بلکہ وہ دستیاب وسائل اور ہرطرح کے حالات میں قابض طاقت کے خلاف لڑتے ہیں۔ اس لیے تحریک انتفاضہ کے لیے بھی عالمی حالات سازگار نہیں ہوسکتے۔ تحریک انتفاضہ کے لیے علاقائی سیاسی اور سیکیورٹی
صورت بھی خوش گوار نہیں۔ اندرون ملک بھی فلسطینی تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں۔ خانہ جنگیوں کے باعث عرب ممالک بھی کہیں دست وگریباں اور کہیں حالت جنگ میں ہیں۔ عالمی برادری کی اسرائیل نوازی بھی فلسطینی تحریک مزاحمت کے برعکس’فیکٹر‘ ہے۔ یہ تمام سلبی اور منفی عوامل ہیں۔ اس کےبرعکس کچھ ایسے عوامل بھی موجود ہیں جو ’’انتفاضہ دوست‘‘ کہے جا سکتےہیں۔ ان عوامل میں ایک اہم عنصر فلسطینی قوم میں تحریک آزادی کے لیے ایمان اوریقین کی حد تک مضبوط جذبہ ہے۔
قومی، علاقائی اورعالمی صورت حال نے مسئلہ فلسطین کے وجود کو بھی خطرے میں ڈالا ہے۔ شاید یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کا فلسطینی قوم نے بہ حیثیت مجموعی ادراک اور شعور پیدا کرلیا ہے۔ فلسطینی نوجوانوں میں اس جذبی کی انگڑائی نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ فلسطینی قوم نے قضیہ فلسطین اور مقدسات کے دفاع کا عزم بالجزم کرلیا ہے۔ اندرون فلسطین بھی تحریک انتفاضہ مثبت اثرات مرتب کررہی ہے۔ اس تحریک نے انتشار اور افتراق کی لکیر کی دونوں طرف کھڑے فریقین کو ایک دوسرے کے قریب لانے، سیاسی بنیادوں پر باہم دست وگریباں گروپوں کی قیادت کو بغل گیر ہونے کا بھی موقع مہیا کیا ہے۔ فلسطین کی سیاسی، مذہبی اور مزاحمتی تنظیموں کی صفوں میں بھی موجودہ حالات میں اتحاد و یکجہتی کی اہمیت کا احساس اجاگرکیا ہے۔ سب فلسطینی جانتے ہیں کہ دفاع وطن، مقدسات اور حقوق کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والےنوجوان کسی گروہی مفاد کے لیے نہیں بلکہ قومی کاز کے لیے اپنی جانیں قربان کررہےہیں۔ اس لیے فلسطینی نوجوانوں کی قربانیاں سبھی کےلیے یکساں قابل احترام ہیں۔
جہاں تک عالمی اور علاقائی صورت حال کا سوال ہے دنیا اس وقت کئی جنگوں میں الجھی ہوئی ہے۔ علاقائی خانہ جنگی، فرقہ وارانہ جنگیں اور سیاسی بنیادوں پر جاری کشمکش قضیہ فلسطین سے توجہ ہٹانے کا موجب بن رہی ہیں۔ اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل موجودہ حالات کو اپنے حق میں’’سنہری‘‘ خیال کرتا ہے، کیونکہ علاقائی معرکہ آرائی سےصہیونی دشمن کو فلسطین میں اپنا قبضہ مضبوط بنانے کا موقع ہاتھ آگیا ہے۔ اگر تو فلسطین میں داخلی محاذ تقویت اختیار کرے تو یہ بھی تحریک انتفاضہ کے لیے ایک مضبوط اور طاقت ور عامل بن سکتا ہے۔ ایسے میں تحریک انتفاضہ کے خلاف مداخلت کے اثرات کم ہوسکتے ہیں۔۔ اگر فلسطین میں اندرونی سطح پر تحریک انتفاضہ کے حق میں رائے عامہ مضبوط ہو اس تحریک کو عرب دنیا اور مسلم امہ کی جانب سے بھی کھل کر حمایت مل سکتی ہے۔
آپ کے خیال میں انتفاضہ القدس جاری رہے گی۔ اگر یہ جاری رہتی تو تلک؟ اسے جاری رکھنے کے عوام اور اختتام کے کیا اسباب ہوسکتے ہیں؟
میرے خیال میں انتفاضہ القدس بدستور جاری ہے اور اس کے جاری رہنےکے تمام اسباب نہ صرف موجود ہیں بلکہ پوری قوت کے ساتھ کار فرما ہیں۔ گوکہ قومی صورت حال اور علاقائی حالات کافی پیچیدہ ہیں مگرمیں پورے وثوق سے کہوں گا کہ تحریک انتفاضہ القدس جاری رہے گی۔ اس تحریک کے جاری رہنے کے درج ذیل اسباب ہیں۔
۔۔۔ مسئلہ فلسطین کے سیاسی حل کے تمام امکانات کے باب بند ہونے، اوسلو معاہدے کے منفی نتائج کے ظہور اور اس سمجھوتے کے کرتا دھرتاؤں کی جانب سے اس کی ناکامی کے اعتراف نے انتفاضہ القدس کو تقویت دی۔
۔۔۔ قابض اسرائیل کی فلسطینی علاقوں میں دراندازی میں اضافہ، فلسطینیوں پر تشدد اور مظالم میں غیرمعمولی اضافہ۔
۔۔۔ غرب اردن اور بیت المقدس سمیت تمام فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری میں اضافہ جس نے فلسطین کے قومی تشخص کو غیرمعمولی حد تک متاثر کیا۔
غرب اردن میں فلسطینی اراضی کو ہتھیانے اور فلسطینی رقبے کو یہودیانے کی اسکیموں میں تسلسل اور اضافہ۔
۔۔۔اسرائیلی حکومت اور صہیونی سماج میں انتہا پسندی کے فروغ پذیر رحجانات ومظاہر، یہودی اداروں میں انتہا پسندوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ اور سیاسی اداروں پر انتہا پسندوں کا غلبہ۔
۔۔۔غزہ کی پٹی کے محاصرہ میں شدت اور غزہ کی ناکہ بندی ہٹانے کے لئے کی جانے والی سیاسی اور سفارتی مساعی کو سبوتاژ کرنے کی صہیونی پالیسی
۔۔۔ فلسطینی سیاسی جماعتوں کی صفوں میں پائی جانے والی رسا کشی اور اس کی روک تھام کے حوالے سے عوام میں پائی جانے والی مایوسی۔ وہ بنیادی اسباب ہیں جو تحریک انتفاضہ کے برقراررہنے اور اس میں شدت پیدا کرنے کا موجب بن رہے ہیں۔ اسباب مذکورہ کی بناء پرفلسطینی تحریک انتفاضہ میں دن رات شدت آتی جا رہی ہے اور اس روکنے کی صہیونی سازشیں ناکام ہوتی جا رہی ہیں۔
اس تحریک کو آگے بڑھانے اور اسے تقویت دینے کے لیے فلسطینی نوجوانوں اور نئی نسل کا کلیدی کردار ہے جنہوں نے اپنی جانوں پر کھیلنے کا فن سیکھ لیا ہے۔ اسرائیلی دشمن کو اندازہ ہوچکا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی نئی نسل کو بلیک میل نہیں کرسکتا اور تحریک انتفاضہ اب کسی جماعت کی مرہون منت بھی نہیں کہ کوئی اسے روک دے۔ اس تحریک میں وہ فلسطینی نوجوان حصہ لے رہے ہیں جن کی کوئی سیاسی وابستگیاں بھی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تحریک تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔
تحریک انتفاضہ جاری وساری ہے۔ آپ کے خیال میں یہ تحریک گراؤنڈ پراپنے اثرات اور نتائج حاصل کرنے میں کامیاب رہے گی۔ آپ کے خیال میں انتفاضہ کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں اور فلسطینی قوم کو اس تحریک سے کیا توقع رکھنی چاہیے؟۔
تحریک انتفاضہ نے اب تک کے عرصے میں بھی اپنے نتائج اور اثرات سے ثابت کردیا ہے کہ یہ تحریک تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی ہے۔ میرے خیال میں اس تحریک کے زمین پردرج ذیل نتائج اور اثرات مرتب ہونے چاہئیں۔
۔۔ مسجد اقصیٰ کی زمانی اور مکانی تقسیم کے سلسلے میں جاری صہیونی سازشوں کی روک تھام۔
۔۔فلسطینی شہریوں کے خلاف یہودی انتہا پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں میں کمی اور دوابشہ خاندان کو زندہ جلائے جانے جیسے ہولناک واقعات کی روک تھام۔
۔۔۔ اسرائیلی ریاست کی علاقائی سطح پر اپنے اصل مقام پرواپسی۔ یعنی خطے کے تمام ممالک اسرائیل کے بارے میں یہ طے کرلیں کہ اسرائیل دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے اتحاد کا حصہ نہیں بلکہ خود دہشت گرد ریاست ہے جو مشرق وسطٰیٰ میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ اسے کسی صورت میں اسلامی دنیا اور عرب ممالک کی سطح پر دہشت گردی کے خلاف بننے والے اتحاد کا حصہ نہیں ہونا۔
۔۔۔ یہ تحریک ثابت کرے کہ اسرائیل ایک وحشی ریاست ہے جو فلسطین پرناجائز طورپر قابض ہے۔ یہ ریاست خطے میں استحکام اور امن کی علامت نہیں بلکہ عدم استحکام کا عنوان ہے۔ یہ [صہیونی ریاست] کسی دوسرے پڑوسی ملک کی مدد نہیں کرسکتی اور نہ کوئی دوسرا ملک اس کی مدد کا مجاز ہے۔
اس تحریک نے درج بالا مقاصد میں سے کئی ایک مقصد حاصل بھی کرلیے ہیں اور عنقریب اس کے دیگر مقاصد بھی حاصل ہونے والے ہیں۔ تحریک انتفاضہ کے آغاز کے بعد نہ صرف فلسطینی شہروں بلکہ صہیونی ریاست میں بھی غرب اردن کو خالی کرنے کے مطالبات میں شدت آرہی ہے۔ اگرچہ فلسطینیوں میں پائی جانے والی پھوٹ اور بے اتفاقی نے صہیونیوں کو غرب اردن سے نکال باہر کرنے کے لیے اٹھنے والی آوازوں میں وہ شدت نہیں جو تمام قوتوں کو مجتمع کرکے اٹھائی جاسکتی ہے۔
تحریک انتفاضہ کو آگے بڑھانے کے لیے فلسطینی تنظیموں کا کیا کردار ہونا چاہیے؟
فلسطینی تنظیموں کی جانب سے درج ذیل اقدامات کی اشد ضرورت ہے تاکہ غاصب ریاست کے خلاف جاری تحریک انتفاضہ کو مزید تقویت دی جاسکے اور اس کے متوقع نتائج حاصل کیے جا سکیں۔
۔۔۔ تحریک انتفاضہ کے اہداف، اس کے ذرائع اور اس میں جدت لانے کے طریقوں پر تمام جماعتوں کا اتفاق رائے ہونا ضروری ہے۔
۔۔۔ تحریک انتفاضہ کو موثر بنانے کے لیے متحدہ قومی قیادت کا قیام ناگزیر ہے، کہیں ایسا نہ ہوکہ تحریک انتفاضہ مختلف تنظیموں کے الگ الگ خانوں میں بٹ کر رہ جائے۔
۔۔۔تمام فلسطینی گروپوں میں پائی جانے والی بے اتفاق کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ فلسطین کے تمام سیاسی اداروں کی جمہوری اور اشتراک عمل کےاصولوں کے تحت تشکیل نو کی جائے۔
۔۔۔ تحریک انتفاضہ میں کی حمایت میں محض زبانی اور لفظی مہم تک محدود رہنے کے بجائے عملی حصہ لیا جائے۔
۔۔۔ تحریک انتفاضہ کو روکنے کے لیے اندرونی اور بیرونی سازشوں کی موثر طریقے سے روک تھام کی جائے۔
آپ کے خیال میں تحریک فتح اور فلسطینی اتھارٹی انتفاضہ القدس کی چنگاری کو بجھانا چاہتے ہیں؟
تحریک انتفاضہ کو ناکام بنانے کے لیے تحریک فتح کی کسی سازش پریقین نہیں کیا جاسکتا تاہم فتح اس حوالے سے تقسیم کا شکار ہے۔ ایک طرف وہ اس چنگاری کو روشن رکھنے کی بھی خواہاں ہے اور دوسری جانب اس میں مزیدشدت لانے کی مخالف بھی ہے۔ فتح اس وقت ایک نئی سیاسی مشکل کا سامنا کررہی ہے۔ فتحاوی قیادت کا خیال ہے کہ تحریک انتفاضہ اسرائیل کے ساتھ سیاسی مذاکرات کی بحالی کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے، اس لیے فتحاوی قیادت اس کی حامی ہے۔ دوسری جانب تحریک فتح کو خدشہ ہے کہ اگر یہ تحریک زور پکڑتی ہے تو اس کے نتیجے میں جماعت کو عوامی سطح پر عدم مقبولیت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ فتح کے مقابلے میں دوسری فلسطینی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی عوامی مقبولیت میں اضافہ بھی نوشتہ دیوار ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ فلسطین میں قومی اتفاق رائے کی فقدان اور بے اتفاقی کے تسلسل سے بھی فلسطینی اتھارٹی کمزور ہو رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔خاص طورپر حماس کی عوامی مقبولیت میں اضافہ فتح کے لیے پریشانی کا موجب ہے۔
کیا تحریک انتفاضہ اسرائیلی سے مذاکرات اور سیکیورٹی تعاون پر اثرانداز ہو رہی ہے؟
فلسطینی تحریک انتفاضہ سے بھی پہلے اسرائیل ۔ فلسطین مذاکرات کا ڈرامہ بری طرح پٹ گیا تھا اور اس کے مظاہر ہم تحریک انتفاضہ سے بھی پہلے دیکھ چکے ہیں۔ اس لیے انتفاضہ کا مذاکراتی ڈرامے پرکوئی براہ راست اثرنہیں پڑا کیونکہ مذاکرات اس تحریک سے پہلے دم توڑ گئے تھے۔
جہاں تک فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون کا معاملہ ہے تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تحریک انتفاضہ کا اسرائیل کے ساتھ فوجی تعاون پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ اسرائیلی ذرائع تو یہاں تک بتاتے ہیں کہ تحریک انتفاضہ کے دوران اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان سیکیورٹی تعاون میں اضافہ ہوا ہے۔
آپ کے خیال میں تحریک انتفاضہ کے ثمرات کون سمیٹے گا؟
تحریک انتفاضہ کے ثمرات سمیٹنے کے لیے اس کے نتائج کو سامنے رکھنا ہوگا۔ اگر اس تحریک کے باوجود فلسطینیوں کی صفوں میں پائی جانے والی بے اتفاقی برقرار رہتی ہے تو ہم یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ اس تحریک کے ثمرات ضائع ہوئے ہیں اور فلسطینی نوجوانوں کی قربانیاں رائے گاں جائیں گی۔ ایسا ماضی میں بھی ایک سے زاید بار ہوچکا ہے۔
آپ کےخیال میں تمام فلسطینی تحریکوں کی متحدہ قیادت کی تشکیل پوری قوم کی ضرورت ہے یا یہ صرف فیلڈ میں سرگرم کمیٹیوں کی ایک وقتی ضرورت ہے؟۔
میں سمجھتا ہوں کہ فلسطین کی متحدہ قیادت کی تشکیل اس لیے ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر تحریک انتفاضہ کو موثر نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ گوکہ فلسطین میں اسرائیلی دشمن کے خلاف ہونے والی کارروائیوں میں فلسطینیوں کی انفرادی کارروائیاں اکثریت میں ہیں اور فلسطینی شہری کسی تنظیم یا جماعت کی سپورٹ کے بجائے انفرادی طورپر اس تحریک میں حصہ لے رہے ہیں۔ مگرفلسطینیوں کی انفرادی کارروائیاں اس تحریک کی خدمت نہیں۔ اس لیے فلسطینیوں کی متحدہ قیادت کی تشکیل ضروری ہے۔ انتفاضہ کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے اس کے اہداف کا تعین کرنا ایک قومی قیادت کی ذمہ داری ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تمام فلسطینی دھڑے تحریک کے حوالے سے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوں۔ تحریک کو لاحق اندرونی اورنی بیرونی خطرات کی روک تھام کے لیے بھی قیادت کی تشکیل ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فیلڈ میں سرگرم کمیٹیوں کو موثر بنانے کے لیے بھی متحدہ قومی قیادت کی تشکیل کی ضرورت سے مستثنیٰ نہیں ہوا جاسکتا۔
انفرادی مزاحمتی کارروائیوں کے کیا دلائل اور ثبوت ہوسکتے ہیں؟
اسرائیلی دشمن کےخلاف فلسطینیوں کی انفرادی کارروائیوں کےدرج ذیل ثبوت اور دلائل دیے جا سکتے ہیں۔
1 ۔۔۔ ہرآنے والا دن فلسطینی قوم میں اس شعور کو پختہ کررہا ہے کہ ان کی قیادت مسائل اور ایشوز کو قومی اصولوں کے مطابق حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس لیے اب فلسطینی قوم انفرادی طورپر خود ہی اس بات کے فیصلے کرنے لگی ہے کہ انہوں نے صہیونی ریاست کو لگام دینے کے لیے کب اور کیا کرنا ہے۔ انہیں اسرائیل کے خلاف تحریک اٹھانی ہے تو کیسے اور اسے آگے بڑھانا ہے تو کس طرح۔
2 ۔۔ فلسطینی قوم کو یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ عالمی برادری اب تک ان کے قومی مسائل اور مطالبات کے حل میں کوئی خاطرخواہ قدم نہیں اٹھا سکی۔ اس لیے فلسطینی قوم کو اپنے حقوق کےحصول کی جدو جہد کا بوجھ خود ہی اٹھانا ہے۔ نیز یہ بھی کہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان بقائے باہمی کے اصول کی باتیں بھی ہوا میں تحلیل ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ دوسری جانب فلسطینی عوام میں جذبہ آزادی سے بھی پوری طرح سرشار ہیں۔ یہی جذبہ انہیں وطن عزیز کے لیے انفرادی اور اجتماعی تحریکوں میں حصہ لینے کا ذریعہ بن رہا ہے۔
3 ۔۔۔ فلسطینیوں کی انفرادی نوعیت کی مزاحمتی کارروائیوں نے بار دگر یہ ثابت کیا ہے کہ قوم ہی قومی پروگرام کا تحفظ کرسکتی ہے۔ تمام فلسطینی تنظیمیں قوم اور تحریک حریت کے مختلف وسائل ہیں۔ اگر یہ وسائل اپنے مقاصد میں ناکام رہتے ہیں تو فلسطینی عوام انفرادی طورپر آگے بڑھ کراپنا کردار ادا کرنے اور قیادت کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
4 ۔۔۔ فلسطینیوں کی انفرادی کارروائیوں کا ایک ثبوت قابض اسرائیلی حکومت کا ’’امن برائے معیشت‘‘ کے پروگرام کا ناکام ہونا بھی ہے۔ اسرائیلی ریاست کی جانب سے بعض فلسطینی نوجوانوں کو اقتصادی مراعات کی آڑ میں اپنے چنگل میں پھنسانے میں ناکامی ، فلسطینی تحریک مزاحمت کو معاشی ناکہ بندی کے ذریعے کمزور کرنے میں ناکامی، بالخصوص غزہ کی پٹی کے عوام پر فقرو فاقہ مسلط کرنے کی پالیسی میں ناکامی نے بھی فلسطینی نوجوانوں میں دشمن کے خلاف ایک نئی تحریک شروع کرنے اور اس میں انفرادی سطح پر شامل ہونے کے داعیے پیدا کیے۔
5 ۔۔۔ فلسطینی میں ہرسطح کے لوگوں میں مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی اہمیت اور احترام قائم ودائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی قبلہ اول اور بیت المقدس کو صہیونی دشمن کی جانب سے کوئی خطرہ لاحق ہوا ہے تو وہ خطرہ فلسطینی قوم میں کسی نئی تحریک کے آغاز کے لیے بجلی کا جھٹکا ثابت ہوا ہے۔ فلسطینی قوم ہربات برداشت کرسکتے ہیں مگر وہ مقدس مقامات کی توہین اور ان کے خلاف ریشہ دوانیوں کو کسی قیمت پر گوارانہیں کرسکتے۔ اس لیے قبلہ اول کو لاحق خطرات اور بیت المقدس میں یہودیت کے فروغ نے فلسطینی نوجوانوں کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر قربانیاں دینے کا موقع فراہم کیا۔
6 ۔۔۔ انفرادی کارروائیوں کے دلائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ غرب اردن کے عوام کوبھی فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ انفرادی کارروائیوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ ضروری نہیں کہ کوئی بھی شخص جو اسرائیل کے خلاف جان کی بازی لینے کا عزم رکھتا ہو وہ کسی مزاحمتی تنظیم کے ساتھ رہا ہے یا اب بھی اس کے ساتھ ہے۔ یہ داعیہ اور جذبہ انفرادی سطح پر بھی پیدا ہوسکتا ہے۔
7 ۔۔۔ فلسطینی قوم میں اسرائیل کودُشمن سمجھنے کے تصورکےراسخ ہونے کے باوجود علاقائی سطح پر اسرائیل کےحوالے سے حالات میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ خطے میں فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر جاری لڑائیوں کے باوجود مسئلہ فلسطین سے توجہ ہٹانے کی کوششیں کامیاب ثابت نہیں ہوسکی ہیں۔
8 ۔۔۔ فلسطینیوں کی انفرادی کارروائیوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انفرادی کارروائیاں عوام میں فلسطینی جماعتوں کے حوالے سے پائی جانے والی مایوسی کی عکاس ہیں۔ عوامی سطح پر تاثر یہ ہے کہ فلسطینی تنظیموں کی اکثریت کمزور واقع ہوئی ہے۔
تحریک انتفاضہ کوعسکریت پسندی کی شکل دینا مفید ثابت ہوگا؟ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو اس کے کیا نتائج سامنے آئیں گے؟
’’عسکریت‘‘ کی اصطلاح کی مخصوص اور واضح تعریف کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک اس کی واضح اور متعین تعریف سامنے نہ لائی جائے اس وقت تک اس پرکوئی رائے دینا مناسب نہیں۔ مگر’’عسکریت‘‘ کی اصطلاح کو مروجہ استعمال تحریک انتفاضہ کے لیے استعمال مناسب نہیں۔ الا یہ کہ اگر فلسطین کی پوری قومی قیادت متفق ہو تواس صورت میں اس اصطلاح کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تحریک انتفاضہ کو آگے بڑھانے کے لیے خواتین، طلبا، نوجوانوں اور بچیوں کا کردار کس حد تک اہم ہے؟
تحریک آزادی فلسطین کے تمام مراحل میں فلسطینی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کا خصوصی کردار رہا ہے اور یہ کردار آئندہ بھی قائم رہے گا۔ فلسطینی ماؤں نے اپنے بچوں کو ثابت قدمی، استقلال ، عزم وہمت اور جذبہ قربانی کی جو تربیت دی اس کی دنیا میں کہیں نظیرنہیں ملتی۔ یہ فلسطینی ماؤں کی تربیت کا نتیجہ ہے کہ مٹھی بھر فلسطینی مجاھدین قابض صہیونی ریاست کو ناکوں چنے چپوا رہے ہیں۔
فلسطینی خواتین ہرمحاذ اورمیدان میں پیش پیش رہیں۔ بچوں کی تعلیم وتربیت ہی نہیں بلکہ براہ راست تحریک آزادی کے ہرمحاذ میں لازوال قربانیاں پیش کیں۔ فلسطینی خواتین نے مقدس مقامات کے دفاع کے لیے مردوں کے شانہ بہ شانہ جدو جہد کی اور مردوں کے ساتھ مل کر دشمن کے ہرپرخطر وار کا مقابلہ کیا۔ اس لیے خواتین کی خدمات اور قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
طلباء فلسطینی تحریک آزادی کا ستون کہلاتے اور تحریک کا ایندھن ہیں۔ آج کے طلباء کل کی فلسطینی قیادت ہے اور فلسطن کی تحریک آزادی انہی کی دم قدم سے ہے۔ فلسطین کی تمام تنظیموں کو طلباء کی مدد اور معاونت حاصل ہےاور ہردور میں طلبا سیاسی اور مزاحمتی تنظیموں کی اٹھائی گئی تحریکوں کو اپنے خون اور پسینے سے سینچتے رہے ہیں۔ فلسطین کی طلباء قیادت نے عوام میں شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ طلباء کو بھی تحریک آزادی کے ساتھ ہم آہنگ کیےرکھا۔
فلسطینی بچوں اور بچیوں کی تحریک آزادی میں بھی گراں قدر خدمات اور لا زوال قربانیاں ہیں۔ فلسطین یے بچے بچے میں وطن سے محبت اور آزادی سے جنون کی حد تک عشق کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔ کم عمری کے باوجود فلسطینی نونہالوں نے بڑوں کی طرح اولوالعزمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے ہرکاری وار کوسہنے کے ساتھ بسات بھرقوت سے اس کا جواب دینے اور دشمن کے خلاف لڑ مرنے کا عملی ثبوت پیش کیا۔ صہیونی دشمن کی جانب سے فلسطینی بچوں کو ڈرامے دھمکانے، ورغلانے اور لالچ اور دھونس کے ذریعے ان کا ضمیر خریدنے کے تمام مکروہ حربے بھی بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔
تحریک انتفاضہ کا القدس، مسجد اقصٰی، یہودی آباد کاری اور آباد کاروں کے لیے کیا پیغام ہے؟
تحریک انتفاضہ کا القدس کے بارے میں یہ پیغام ہے کہ یہ شہر بلا کم وکاست فلسطین کا اٹوٹ انگ اور مستقبل میں بننے والی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہے۔ یہ وہ راز ہے جسے فلسطینیوں کی نسلیں سینہ بہ سینہ ایک دوسری کو منتقل کرتی آئی ہیں۔
مسجد اقصیٰ کے حوالے سے انتفاضہ کا پیغام یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کا قبلہ اول اور اہل اسلام کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ یہی وہ مقدس مقام ہے جس نے فلسطینیوں کو عزم وعزیمت کے ولولے سے سرشار کیا ہے۔ انہیں ایک تشخص دیا اور اپنے دفاع اور مقدسات کے دفاع کے لیے لڑمرنے کی ہمت عطا کی ہے۔
یہودی آباد کاری اور آباد کاروں کے حوالے سے انتفاضہ کا پیغام بھی واضح ہے۔ یہودیوں کویہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ وہ ارض فلسطین اور فلسطینی قوم پر اپنی مکروہ چھاپ نہیں لگا سکتے ہیں۔ یہودی چاہے جتنا بھی فلسطینی اراضی کو ہتھیائیں اور ان کی کتنی بڑی تعداد فلسطین میں کیوں نہ جمع ہوجائے مگر وہ فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں رکھ سکتے۔ وہ فلسطین کے مالک نہیں بن سکتے۔ فلسطین میں ان کا کوئی مستقبل نہیں اور نہ ہی انہیں وہاں اپنے بقاء کی امیدرکھنی چاہیے۔ انہیں ایک نا ایک دن وہاں سے نکلنا ہے۔
دوسری تحریک انتفاضہ نے غزہ کی پٹی سے یہودیوں کو نکال باہرکیا اور اب مغربی کنارے اور بیت المقدس سے یہودیوں کو بے دخل کیے جانے کا وقت آگیا ہے۔