اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کےشعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ اور لبنان میں جماعت کے امور کے انچارج اسامہ حمدان نے کہا ہے کہ بیت المقدس اور مغربی کنارے میں فلسطینی عوام کی جانب سے شروع کی گئی انتفاضہ اور بیداری کی تحریک نے انسانی جسم میں خون کی طرح قومی مزاحمت کی روح ایک بار پھر تازہ کردی ہے۔
انہوں نے یہ ان خیالات کا اظہار "مرکز اطلاعات فلسطین ” کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔ ان کے انٹرویو کا ایک حصہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے جبکہ جلد ہی دوسرا اور آخری حصہ بھی شائع کردیا جائے گا۔ انہوں نے بیت المقدس اور مغربی کنارے میں صہیونی ریاست کے خلاف جاری فلسطینیوں کی بیداری کی لہر کو "انتفاضہ القدس” کا نام دیا۔
عناصر ثلاثہ
مرکز اطلاعات فلسطین کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے اسامہ حمدان نے کہا کہ بیت المقدس اور مقبوضہ غرب اردن میں فلسطینیوں کی جانب سے شروع کی گئی مزاحمتی تحریک تین اہم عوامل اور عناصر پر مشتمل تھی۔ اس تحریک نے یہ ثابت کیا کہ فلسطینی عوام انفرادی اور اجتماعی سطح پر کسی تنظیم کی مہمیز اور ترغیب وترھیب کے بغیر بھی دشمن کے خلاف بھرپور عوامی مزاحمت کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔ موجودہ حالات اور فلسطینی عوام کے صہیونی ریاست کےخلاف سڑکوں پر نکلنے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قوم ایمان کی دولت سے مالا مال ہے اور وہ عزت و وقار کی زندگی جینا جانتی ہے۔
موجودہ تحریک کا دوسرا محرک اور عنصر فلسطینی اتھارٹی کا اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کی انجام دہی میں مبینہ غفلت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے پچھلے نہایت قیمتی سال صہیونی ریاست کے ساتھ نام نہاد امن مذاکرات کا ڈھونگ رچانے میں برباد کیے۔ فلسطینی قوم اس سارے تماشے کو بہ چشم سر دیکھتی رہی کہ مسلسل مذاکرات کی بے مقصد مشق ان کے حقوق کے حصول کا ذریعہ نہیں بن سکی لہٰذا لا محالہ انہیں دشمن کےخلاف اب بندوق اٹھانا ہی پڑے گی۔
موجودہ تحریک کا تیسرا محرک فلسطینی قوم کو صہیونی ریاست کی جانب سے بند گلی میں پہنچانا اور دیوار سے لگانے کی سازش ہے۔ صہیونی ریاست نے غزہ کی پٹی کے عوام کو پچھلے نو سال سے محصور کر رکھا ہے۔ فلسطینی عوام کی جانب سے اسرائیلی مظالم کے خلاف اگر کوئی منظم کارروائی کی گئی اور اسے کسی مخصوص گروپ کی کارستانی قرار دے کراس کی مخالفت کی گئی لیکن جب پوری قوم کسی گروپ اور فرد کے بغیر بے ترتیب اور غیر منظم انداز میں اٹھ کھڑی ہوئی ہر ایک کا ماتھا ٹھنکا کہ اب فلسطینی قوم بہ حیثیت مجموعی بیدار ہوچکی ہے۔
بیداری اور عوامی مزاحمت کی اس تازہ تحریک میں فلسطینی قوم نے مزاحمت کا ایک نیا روپ دھارا۔ صہیونی دشمن کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ فلسطینی عوام میں جذبہ انتقام اس حد تک بڑھ سکتا ہے کہ وہ اپنی گاڑیاں یہودی آباد کاروں پر چڑھانے لگیں گے۔ اس انداز مزاحمت نے یقینا دشمن کی نیندیں حرام کیں مگر ساتھ ہی ساتھ پوری قوم میں مزاحمت کا ایک نیا ڈھنگ متارف کراتے ہوئے مزاحمت کی ایک نئی روح پھونک دی ہے۔
حماس تماشا بین نہیں بن سکتی
فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے، مقبوضہ بیت المقدس اور شمالی فلسطین میں صہیونی ریاست کے خلاف
فلسطینی قوم کی حالیہ تحریک مزاحمتی گروپوں بالخصوص حماس کے کردار سے متعلق سوال کے جواب میں اسامہ حمدان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں حماس کی پالیسی یہ ہے کہ جماعت خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتی ہے۔ حماس قوم کا حصہ ہے۔ اگر قوم صہیونی دشمن کے خلاف مزاحمت کے لیے ہمہ تن گوش اور تیار ہے تو کسی بھی دوسری تنظیم سے پہلے عوام کو حماس ہی کی حمایت حاصل ہوگی۔
حماس کے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ اسرائیل پر حملہ کسی نے کیا اور اس کا تاریخی، خاندانی اور نظریاتی پس منظر کیا ہے۔ ان تمام پہلوؤں سے قطع نظر حماس غیر مشروط طور پر قوم کے ساتھ کھڑی ہوگی اور مزاحمت کو مزید تقویت بہم پہنچانے کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کارلائے گی۔ حماس کی قیادت کو اپنی قومی ذمہ داریوں کابہ خوبی احساس اور ادراک ہے۔ موجودہ حالات میں حماس کیا کوئی بھی دوسری مزاحمتی تنظیم بھی غیر جانب دار ہوکر تماشہ بین نہیں بن سکتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کی پٹی میں رواں سال جولائی اوراگست میں صہیونی فوج کی درندگی کے مقابلے میں غزہ کی پٹی کے نہتے عوام نے جس صبر کا مظاہرہ کیا وہ القدس اور مغربی کنارے کے شہریوں کے سامنے تھا۔ ان شہروں کے عوام کو فلسطینی اتھارٹی کی پولیس نے پوری قوت سے صہیونی ریاست کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے سے روکنے کی کوشش کی لیکن عباس ملیشیا بھی مزاحمت کے تسلسل کو توڑنے میں ناکام رہی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حماس نے صہیونی ریاست کے خلاف ایک بھرپور عوامی تحریک اٹھانے کے لیے عارضی طور پر مزاحمت کا عمل موخر کیا تو اسامہ حمدان کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں حماس بدترین حالات کا سامنا کررہی ہے۔ غزہ میں حماس کو درپیش حالات مغربی کنارے سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہیں۔
سنہ نوے کے عشرے میں یہ بات مشہور کردی گئی تھی کہ حماس اپنا وجود کھوہ چکی ہے۔ لیکن ایسے نادان لوگ یہ نہیں سمجھ رہے تھے کہ حماس فلسطینی قوم کا دوسرا نام ہے۔ دشمن کے خلاف اور اپنے بنیادی حقوق کی حمایت میں مسلح جدو جہد فلسطینی قوم کے رگ و پے میں سرایت کرچکی ہے۔ حماس قومی مزاحمت کی تشکیل نو کی کوششوں میں مصروف رہی اور مخالفین اس کی راہ میں روڑے اٹکانے اور بے پر کی افواہیں اڑانے میں مصروف رہے ہیں۔ اب تک کسی سازشی کی کوئی چال کامیاب نہیں ہوسکی۔ آئندہ بھی اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ حماس فلسطینی قوم کی مدد سے پیش آئندہ مہینوں میں یہ ثابت کرے گی کی غرب اردن اور بیت المقدس میں قومی مزاحمت زیادہ موثر رہی اور ساتھ ہی ساتھ ہم یہ بھی ثابت کریں گے کہ فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی اداروں نے اپنے حقیقی فرائض کی انجام دہی سے پہلو تہی اختیار کرتے ہوئے قوم کی دشمن اور غاصب ریاست کے مفادات کا دفاع اپنی ذمہ داری بنا رکھا ہے۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں اسامہ حمدان کا کہنا تھا کہ ایک الزام یہ عاید کیا جاتا ہے کہ فلسطینی نوجوانوں کو ایک تاریک راستے کی طرف ورغلایا جا رہا ہے اور قوم کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک بے مقصد لڑائی میں جھونک دیا گیا ہے۔ اگر ہم فرض کریں کہ معترضین کا یہ مقدمہ درست مان لیا جائے کہ قومی مزاحمت کے ذریعے فلسطینی قوم کے جوانوں کو تاریک راہ کی طرف دھکیلا جا رہا ہے تو اس سے پہلا اور فوری تاثر یہ ابھرتا ہے کہ فلسطینی قوم خود سوچنے سمجنےے سے عاری ہے اور وہ کسی کے ہاتھ میں ایک آلہ اور کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تاثر درست نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک غیر ذمہ دارانہ سوچ اور طرز عمل اور مزاحمت کی روح کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔
دوسری بات اس اعتراض سے یہ مان لی جائے کہ عوامی مزاحمت میدان جنگ کا راستہ اختیار کرکے بات چیت کے راستے بند کرنے کی ایک کوشش ہے تو ظاہر ہے فلسطینی قوم سب جانتی ہے کہ اب تک کی مسلسل اور طویل بے مذاکرات نے نتیجہ ہی رہے ہیں۔
انہوں نے مثال کے طور پر سنہ 2004ء کے دوران غزہ کی پٹی سے یہودی کالونیوں کے خاتمے کو بہ ثبوت پیش کیا اور کہا کہ غزہ سے اسرائیل اگر نکلا ہے تو وہ مزاحمت ہی کا ثمر ہے نہ کہ مذاکرات اور بے مقصد بات چیت کا۔ البتہ اس کے برعکس یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مذاکرات کی ایک بے مقصد مشق فلسطینی قوم کا مستقبل تاریک کررہی ہے۔
اسرائیل سے جنگ بندی
اسرائیل کے ساتھ فلسطینی مزاحمتی گروپوں کی فائر بندی اور اس کے مستقبل کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں اسامہ حمدان کا کہنا تھا کہ "جنگ بندی کی اصطلاح ایک سیاسی منطق ہے۔ یہاں جنگ بندی سے لوگ یہ مراد لیتے ہیں کہ فلسطینی مزاحمت کاروں نے قومی حقوق کے حصول کے لیے مسلح مزاحمت کا راستہ ترک کردیا۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں۔ کم از کم حماس کی حد تک تو ایسا نہیں کیونکہ حماس اور وسیع البنیاد مزاحمتی پروگرام رکھتی ہے۔ جو عناصر صہیونی ریاست کی چاکری کرنا چاہتے ہیں انہیں تو قومی مزاحمت کے بارے میں سوال کرنا ہی نہیں چاہیے کیونکہ وہ تو قومی مفادات پر دشمن کے مفادات کے تحفظ کو ترجیح دے چکے ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے گفت و گو کرتے ہوئے لبنان میں حماس کے رہ نما اور جماعت کے تعلقات عامہ کے شعبے کے انچارج اسامہ حمدان نے کہا کہ ان کی جماعت قومی مفاہمت کا عمل آگے بڑھانے پر پورا یقین رکھتی ہے، کیونکہ قومی مفاہمت ہی پوری قوم میں ہم آہنگی پیدا کرسکتی ہے۔ اس سلسلے میں حائل ہونے والی کسی رکاوٹ کو بھی خاطر میں نہیں لایا جائے گا بلکہ قومی مفاہمت کا ہرقیمت پردفاع کیا جائے گا۔
مفاہمت ہی سے متعلق ایک سوال کےجواب میں اسامہ حمدان نے کہا کہ فلسطین میں اس وقت ایک گروپ ایسا ہے جس کے ذہن میں یہ بات جاگزیں ہے کہ قومی نوعیت کے فیصلہ سازقائدین کی فہرست میں کوئی رد وبدل نہ کیا جائے۔ ہمارے سامنے اس ذہنیت کے جواب میں دو آپشنز ہیں۔ اول یہ ہم اس کے ساتھ طاقت کے ذریعے ٹکرا جائیں لیکن تصادم کے اپنے منفی نتائج ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں فلسطین میں ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے۔ دوسرا مفاہمت کا راستہ ہے اور حماس مفاہمت ہی کے ذریعے اس مخصوص ”ذہنیت” کا مقابلہ کرے گی۔
انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمودعباس پرزور دیا کہ وہ قومی نوعیت کے فیصلوں کو ایک مخصوص گروپ تک محدود رکھنے کے بجائے قوم کے ‘عقل اجتماعی’ کو فوقیت دیں۔ قومی مزاحمت پر بھرپور اعتماد اور یقین کریں کیونکہ فلسطینی قوم کا اجتماعی فیصلہ مزاحمت ہی کا فیصلہ ہے۔ آج تک اگر مسئلہ فلسطین عالمی سطح پر زندہ ہے تو یہ مزاحمت ہی کا ثمر ہے۔ مزاحمت ہی کے نتیجے میں سیاسی میدان میں کوئی کامیابی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔
حماس کا دیرینہ موقف
مفاہمت کے بارے میں ایک دوسرے سوال کے جواب میں اسامہ حمدان کا کہنا تھا کہ فلسطین اس وقت داخلی سطح پر ایک سنگین بحران سے گذر رہا ہے۔ موجودہ حالات میں حماس ان بحرانوں سے نکلنے کے لیے قومی مفاہمت پر یقین رکھتی ہے۔ اگرچہ قومی مفاہمت کا عمل آگے بڑھانے میں مشکلات بھی حائل رہی ہیں لیکن پچھلے کچھ عرصے کے دوران مفاہمتی عمل نے مثبت سمت میں پیش رفت کی ہے۔ مفاہمت ہی قومی ہم آہنگی کی خشت اول بن سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی عنصر قومی مفاہمت کی راہ میں حائل ہونے کی سازش کرے تو ہم سب کو مل کر اس سازش کو ناکام بنانا ہوگا۔ اگر ہم ایسی کسی بھی سازش کے سامنے جھک گئے تو مسئلہ فلسطین ایک بار پھر بہت پیچھے چلا جائے گا۔ قومی مفاہمت کے تحت ہمیں عبوری حکومت کو بھی کامیاب بنانا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ صدر محمود عباس سمیت ان کی جماعت کی قیادت غیرذمہ دارانہ بیان بازی سے سختی سے گریز کریں۔ حماس کی طرح الفتح اور تمام دیگر قومی طاقتوں کو مفاہمت کا حریص ہونا چاہیے اور مفاہمت کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا چاہیے۔
اسامہ حمدان کا کہنا تھا کہ فلسطینی قوم کے تمام مسائل کا پہلا حل قومی وحدت ہے۔ حماس اس لیے بار بار اس پر زور دے رہی ہے کہ جب تک فلسطینی قوم کی صفوں میں اتفاق اور ہم آہنگی نہیں ہوگی اس وقت تک وطن کی آزادی کے لیے ہماری مساعی بھی موثر ثابت نہیں ہوسکتی ہیں۔
اجارا دارنہ ذہینت بدلنے پر زور
ایک سوال کے جواب میں اسامہ حمدان نے کہا کہ فلسطینی قوم میں بے اتفاقی کی ایک وجہ کچھ لوگوں کا اجارا دارانہ رویہ ہے۔ یہ گروپ اپنی مرض کے فیصلے پوری قوم پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں مسئلہ فلسطین کے قومی نوعیت کے فیصلے ایک مخصوص طبقے کی جانب سے کیے جاتے رہے ہیں اور ان میں دوسرے طبقات سے مشاورت نہیں کی گئی، جس کے نتیجے میں اختلافات کی خلیج مزید گہری ہوتی چلی گئی۔
انہوں نے کہا کہ اب بھی اجارا دارانہ ذہنیت قومی نوعیت کے فیصلوں میں دوسروں کو شریک کرنے کی روادار نہیں۔ ہم اس وقت وطن کی آزادی کے مرحلے سے گذر رہے ہیں۔ فلسطین قوم اندرون اور بیرون ملک بحرانوں کا سامنا کررہی ہے۔ ان سے نکلنے کے لیے ایک طبقے کے فیصلے نہیں پوری قوم کے اجتماعی فیصلوں کی ضرورت ہے۔
ایسے میں صرف حماس نہیں بلکہ تمام فلسطینی نمائندہ قوتیں اجارا دارانہ ذہینت کو بدلنے کے لیے موثر کوششیں کریں۔
دو متوازی نقطہ ہائے نظر
اسامہ حمدان نے واضح کیا کہ اس وقت فلسطین میں دو مختلف اور متوازی نوعیت کے نقطہ ہائے نظر پائے جا رہے ہیں۔ ایک وہ نقطہ نظر جس کے ماننے والوں کے خیال میں فلسطین صرف مذاکرات کے ذریعے آزادی کی منزل پا سکتا ہے جبکہ دوسرے نقطہ نظر کے مطابق آزادی صرف مزاحمت کے ذریعے ممکن ہے۔
پہلے نقطہ نظر کے طرف داروں نے 20 سال پیشتر سنہ 1993ء میں اسرائیل کے ساتھ ”اوسلو” معاہدہ کیا۔ آج تک ہم اس معاہدے کی کاشت کردہ فصل کاٹ رہے ہیں۔ اس معاہدے نے عملا فلسطینی قوم کو تقسیم کرکے رکھ دیا۔ اسی پروگرام کے ماننے والے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے چار جون 1967ء سے قبل والی پوزیشن پر جانے کی حمایت کرتےہیں۔ گویا یہ سنہ 1967ء کی چھ روز جنگ کے دوران قبضے میں لیے گئے صرف 40 فی صد علاقے پر جبکہ پورے فلسطین کے صرف 10 فی صد رقبے پر فلسطینی ریاست کے قیام کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔
جہاں تک مزاحمت کے نقطہ نظر کا تعلق ہے تو ہم یہ مانتے ہیں کہ اس کے ذریعے فلسطین تو آزاد نہیں ہوسکا لیکن قوم نے بہت سے مسائل کے حل میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ مزاحمت ہی کا ثمر ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی سے فوجیں نکالنے اور یہودی کالونیاں ختم کرنے پر مجبور ہوا۔ مزاحمت کا سلسلہ جاری رہے تو جلد صہیونی ریاست کو دیگر فلسطینی علاقوں سے بھی نکال باہر کیا جائے گا لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی صہیونی فوج کے ساتھ عسکری تعاون بھی ختم کرے۔
اسامہ حمدان نے کہا کہ مزاحمت کے نتیجے میں ارض فلسطین پر صہیونی ریاست کو عدم استحکام سے دوچار کیا گیا اور اسرائیل کا فلسطینی علاقوں میں امن وامان کے قیام کے دعوہ خاک میں ملا دیا گیا، مزاحمت کے نتیجے میں صہیونی ریاست کو بے پناہ اقتصادی نقصان سے دوچارکیا گیا اور اسے عالمی سطح پربھی سنگین بحرانوں میں ڈالا گیا۔
حماس کی جامع حکمت عملی
اسامہ حمدان نے کہا کہ مذکورہ دونوں نقطہ ہائے نظر کو سامنے رکھتے ہوئے حماس نے توازن پر مبنی پالیسی اختیار کی، لیکن اپنی پالیسی میں غاصب ریاست کے خلاف مسلح مزاحمت کو اولیت دی۔ مزاحمت ہی کی کامیابیوں کو سیاسی میدان میں مثبت نتائج کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ یوں نہایت عزت اور وقار کے ساتھ فلسطینی قوم کئی ایک اہم کامیاں اور اھداف حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ حماس نے اپنے قیام سنہ 1989ء اب تک اسرائیل کو تسلیم کیا اور نہ ہی صہیونی ریاست کی بے جاشرائط مانیں، جبکہ صہیونی ریاست کو کئی بارحماس اور فلسطینی قوم کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔
اب حماس عظیم تر مقاصد کے حصول کے لیے قومی مفاہمت کو یقینی بنانے کی خواہاں ہے۔ قوم کے تمام طبقات کو ایک صفحے پر لانے کے بعد تنظیم آزادی فلسطین کی تشکیل نو ہمارا اگلا ہدف ہے ۔ ہم ہر ایک سے بہ تکرار اور بہ اصرار کہتے ہیں کہ ہمارا پروگرام کسی ایک نقطے تک محدود نہیں بلکہ حماس ایک جامع قومی پروگرام پیش کرتی ہے۔ انتشار اور بے اتفاق کے خاتمے کے لیے سب نے ماحول ساز گار بنانے پراتفاق کیا ہے۔ ہمیں غزہ کی پٹی کی تعمیرنو جیسے ایک بڑے چیلنج سے نمٹنے کے لیے قومی مفاہمت اشد ضرورت ہے۔ قومی مفاہمت کا عمل آگے بڑھاتے ہوئے ہم نے لوکل باڈیز، قومی اسمبلی اور صدارتی انتخابات کے معرکے بھی سر کرنے ہیں اور اس کے بعد وطن کی آزادی اور جلا وطن لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی جیسے اہداف حاصل کرنا ہیں۔
اسامہ حمدان نے کہا کہ ان کی جماعت اپنی اسی جامع پالیسی پر قائم رہے گی۔ اگرچہ قومی مفاہمت کی راہ میں رکاوٹیں بھی کھڑی کی جا رہی ہیں لیکن رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں سے کہوں گا کہ تم کسی صورت میں کامیاب نہیں ہو سکو گے کیونکہ فلسطینی قوم مفاہمت کےخلاف سازشیں کرنے والوں کےخلاف خاموش نہیں رہے گی۔ حماس اور فلسطینی قوم ان تمام گروپوں، افراد، شخصیات اور اطراف کی پوری مانیٹرنگ کررہی ہے جو قومی پروگرام کو تباہ کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
حکومت کی آئینی حیثیت، بے لاگ احتساب
فلسطین میں داخلی سیاسی افق پر پائے جانے والے اختلافات اور قومی حکومت کی اپنی فرائض کی انجام دہی میں ناکامی کی صورت میں حماس کیا متبادل طریقہ اختیار کرے گی؟ اسامہ حمدان نے اس سوال کا مفصل جواب دیا۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی اختلافات کوئی اچنھبے کی بات ہرگز نہیں، ہر ملک میں مختلف سیاسی نقطہ ہائے نظر رکھنے والے گروپ ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ فلسطین میں بھی ایسا ہونا فطری بات ہے۔
جہاں تک حکومت کی کارکردگی کا تعلق ہے تو پہلے تو یہ واضح کردیا جائے کہ حکومت، مجلس قانون ساز اور ایوان صدر یہ تین اہم با اخیتار ادارے ہیں اور فلسطینی دستور کے مطابق تینوں کے اپنے اپنے اختیارات اور دائرہ کار ہے۔ فلسطینی قومی حکومت کی کارکردگی پرمجلس قانون ساز میں بحث جمہوری اور آئینی حق ہے اور بحث جاری رہنی چاہیے۔ کیونکہ حکومت قانون ساز کونسل کے سامنے جواب دہ ہے۔ جہاں تک صدر محمود عباس کے عہدہ صدارت کا معاملہ ہے توحماس نے انہیں طوعا وکرھا قبول کیا ہے، تاہم دستور کے مطابق ملک کے بنیادی سیاسی نظام میں صدر کے اختیارات بہت محدود ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ کو اس وقت تک آئینی تحفظ حاصل ہے جب تک وہ اپنے فرائض منصبی احسن طریقے سے انجام دے رہا ہے جب صدر کی جانب سے اپنی فرائض کی انجام دہی میں کوتائی کی جائے گی تو مجلس قانون ساز کو صدر کے بے لاگ احتساب کا بھی حق ہے۔ اس صورت میں صدر کے پاس کو تحفظ کا کوئی حق حاصل نہیں رہتا۔ قانون کے مطابق صدر سے بھی پوچھ گچھ کی جائے گی تاکہ جس غلطی کی وجہ سے احتساب کیا گیا ہے قومی مفاد کے لیے اس کا سدباب کیا جاسکے۔
حکومت یا صدر کی کارکردگی جانچنے کے لیے بحث ومباحثے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ملک میں ایک نیا بحران کھڑا کیا جائے احتساب دراصل معاملات کو بہتر انداز میں آگے بڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
میرے خیال میں سب سے اہم بات اعتماد کی ہے۔ اگر کسی ایک گروپ کو پوری قوم کا اعتماد حاصل ہے تو اسے حکومت بنانے کا حق حاصل ہے۔ ہم ایک قوم ہیں۔ ہمارے اہداف اور مقاصد بھی ایک ہیں۔ جب غاصب دشمن کے ہاتھوں کوئی ایک فلسطینی شہید کیا جاتا ہے تو پوری قوم کو اس کا یکساں دکھ ہوتا ہے قطع نظر اس کے شہید کا تعلق کس جماعت یا گروپ کے ساتھ ہے۔ اسی طرح جب کسی ایک یہودی کو اپنی ارضی سے نکال باہر کیا جاتا ہے تو یہ کسی ایک گروپ کی فتح نہیں بلکہ قومی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔
اس وقت تمام گروپوں کو ایک ساتھ مل کر غاصب دشمن کےخلاف جدو جہد کرنا ہے۔ اس کے لیے پوری قوم کا سب پر اعتماد ضروری ہے ورنہ بے اتفاقی کے نتیجے میں ہم حاصل کردہ اہداف کو بھی کھو دیں گے۔ قومی مفاہمت پر پوری قوم کا اعتماد ہے۔ حماس نے قومی حکومت کی تشکیل کے دوران وزارت عظمیٰ کا عہدہ ترک کرنے کی قربانی دی، یہاں تک کے صدر محمود عباس ہی کو وزارت عظمیٰ کے اختیارات سونپنے کی بھی حمایت کی۔ پھر ہم نے محمود عباس کے مقرر کردہ وزراء کو قبول کیا۔ اگرچہ حکومت میں ٹیکنو کریٹس ہی کو شامل کیا گیا مگران تمام وزراء کا کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق یا قربت تو پائی جاتی ہے۔ حماس نے یہ تمام قربانی صرف قومی مفاہمت اور مصالحت کی خاطر پیش کی۔
اب تمام فلسطینی نمائندہ جماعتوں اور صدر محمود عباس کی بھی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ گروہی مفادات سے اوپر اٹھ کر مفاہمت اور مزاحمت کا راستہ اختیار کریں اور صرف ایک گروپ کی نمائندگی کے بجائے پوری قوم کی نمائندگی کریں۔